گورنر نے وزیراعلیٰ پرویز الہٰی کو ڈی نوٹیفائی کرنیکا حکم واپس لے لیا

Jan 12, 2023 | 09:56:AM

 (24 نیوز) گورنر پنجاب بلیغ الرحمان نے وزیراعلیٰ پرویز الہٰی کو ڈی نوٹیفائی کرنے کا حکم واپس لے لیا۔ گورنر پنجاب کے وکیل منصور اعوان نے عدالت کو آگاہ کر دیا۔ جسٹس عابد عزیز شیخ نے ریمارکس دیئے کہ نوٹیفکیشن ہی واپس ہو گیا تو ساری بات ہی ختم ہوگئی۔

جسٹس عابد عزیز شیخ کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ پرویز الہی کو وزیر اعلی کے عہدے سے ہٹانے کے خلاف درخواست پر سماعت کی۔ پرویز الہی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر عدالت میں پیش ہوئے اور عدالت کو آگاہ کیا کہ رات کو اعتماد کا ووٹ لے لیا ہے۔

جسٹس عابد عزیز شیخ نے استفسار کیا کہ کتنے ارکان تھے رات کو۔ بیرسٹر علی ظفر نے بتایا کہ 186 ارکان نے اعتماد کا اظہار کیا، 186 ارکان کی ہی ضرورت ہوتی ہے۔

وکیل گورنر پنجاب منصور اعوان نے کہا کہ فلور ٹیسٹ ہوگیا ہے، وزیر اعلی نے اعتماد کا ووٹ لے لیا ہے۔ سپیکر کے وکیل نے پرویز الٰہی کی کامیابی کا نوٹیفکیشن عدالت میں پیش کر دیا۔

جسٹس عابدعزیز شیخ نے گورنر کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ پرویز الٰہی نے اعتماد کا ووٹ لے لیا ہے، ایسے میں اب آپ کیا کہتے ہیں۔ جسٹس عاصم حفیظ نے کہا کہ اب بھی اگر گورنر کوئی نوٹیفکیشن جاری کرتے ہیں تو صورت حال کیا ہوگی۔

جسٹس عابد عزیز شیخ نے استفسار کیا کہ کیا گورنر اعتماد کے ووٹ سے مطمئین ہیں۔ وکیل گورنر پنجاب نے کہا کہ اعتماد کے ووٹ کے ریکارڈ کو عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنا دینا چاہیے۔ 

جسٹس عابد عزیز شیخ نے استفسار کیا کہ بیرسٹر علی ظفر، آپ کیا کہیں گے، فلور ٹیسٹ ہو گیا ہے، کیا اپ اس درخواست کی سماعت پر زور دیں گے۔ بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ میں اس نکتے پر بریف دلائل دینا چاہتا ہوں، ہمارے پاس ووٹ موجود ہیں، یہ معاملہ اصول کا ہے، گورنر کو وجوہات دینا چاہیے تھیں، بظاہر تو درخواست غیر موثر ہو گئی ہے، گورنر کا نوٹیفکیشن قانون کے مطابق نہیں تھا۔

جسٹس عابد عزیز شیخ نے وکیل علی ظفر سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے سامنے دو نوٹیفکیشن تھے ایک عدم اعتماد لینے کا، دوسرا ڈی نوٹیفائی کرنے کا، ہم بھی آپ سے بہت کچھ سیکھتے ہیں، آپ کہتے ہیں کہ گورنر کا حکم قانون کے مطابق نہیں، اگر گورنر پنجاب کے آرڈر کو کالعدم قرار دے دیں تو وزیر اعلی کے اسمبلی سے ووٹ لینے کی بھی کوئی اہمیت نہیں رہے گی، اگر انہوں نے اعتماد کا ووٹ لے لیا ہے تو گورنر کے ایک حکم پر فیصلہ دے دیتے ہیں، ووٹ لینے کے بعد ایک معاملہ تو حل ہوگیا ہے، اب معاملہ یہ رہ گیا ہے کہ گورنر کا نوٹفکیشن ٹھیک تھا یا نہیں۔

جسٹس عابد عزیز شیخ نے استفسار کیا کہ آپ نے آرٹیکل 137 کے تحت اعتماد کا ووٹ لے لیا ہے۔ جسٹس عاصم حفیظ نے کہا کہ اگر آپ یہ کہیں گے کہ گورنر کا حکم غیر قانونی ہے تو معاملہ آخر تک جائے گا۔ جسٹس عابد عزیز شیخ نے کہا کہ اگر گورنر کے حکم کو دیکھنا ہے تو پھر ہمیں سب کچھ دیکھنا پڑے گا، آپ نے اس کا حل ٹھیک نکالا۔ گورنر کو مطمئن کرنے کےلئے آپ نے اعتماد کا ووٹ لے لیا۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ گورنر کی جانب سے ہٹائے جانے کا اقدام تو غیر قانونی تھا۔ جس پر جسٹس عابد عزیز نے کہا کہ کیا عدالت اتفاق رائے سے ایک فیصلہ کر دے۔ وکیل بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ عدالت اس پر اپنی فائنڈنگ دے دے۔

جسٹس عابد عزیز شیخ نے بیرسٹر علی ظفر سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ تین سوال کا جواب دے دیں کہ کیا گورنر اعتماد کے لئے کتا مناسب وقت دے سکتا ہے، کیا گورنر کوئی وقت مقرر کرسکتا ہے، اب ہمارے پاس تین سوال ہیں، ایک سوال پر تو آپ نے اعتماد کا ووٹ لے لیا۔

وکیل بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ مناسب وقت کے دوسرے سوال پر میں عدالت کی معاونت کروں گا۔ جسٹس عابد عزیز شیخ نے کہا کہ تیسرا سوال یہ ہوگا کہ جب سیشن نہ ہو تو کیا وزیر اعلی کو اعتماد کا ووٹ نہ لینے پر گھر بھیج سکتے ہیں، گورنر کی جانب سے تاریخ مقرر کرنے کے نکتے کا سوال بھی اٹھایا جا سکتا ہے۔

جسٹس عاصم حفیظ نے ریمارکس دیئے کہ اعتماد کا ووٹ لینے کے بعد آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ 186 اراکین آپ کے ساتھ ہیں۔ جسٹس عابد عزیز شیخ نے کہا کہ آپ کا مدعا مضبوط بھی ہوتا تو اعتماد کا ووٹ لئے بغیر گورنر کا موقف مضبوط شمار ہونا تھا۔

جسٹس عاصم حفیظ نے کہا کہ آپ نے اعتماد کا ووٹ آئین کے آرٹیکل 137 کے سب سیکشن 7 کے تحت لیا ہے۔ جسٹس عابد عزیز شیخ نے کہا کہ اب آپ کی اسمبلی ہے آپ جا کر اپنے معاملات نمٹائیں۔ جسٹس عاصم حفیظ نے کہا کہ فرض کرلیں گورنر کا حکم غیر آئینی تصور کر بھی لیا جائے تو اس کا منطقی انجام کیا ہوگا، گورنر کےاحکامات کو آئینی تحفظ حاصل ہے۔

جسٹس عابد عزیز شیخ نے ریمارکس دیئے کہ اگر باریک بینی میں گئے تو سارا معاملہ کھل جائے گا، پھر یہ بھی دیکھنا پڑے گا کہ گورنر پنجاب کس طرح تعین کرے گا کہ وہ دوبارہ اعتماد کے ووٹ کا کہے گا، جس پر گورنر پنجاب کے وکیل منصوراعوان ایڈوکیٹ نے کہا کہ جب وہ محسوس کرے گا۔ جسٹس عاصم حفیظ نے ریمارکس دیئے کہ ہمیں پتہ ہے کیا کرنا ہے؟۔

 جسٹس عابد عزیز شیخ نے کہا کہ کیا ہر بار گورنر اس طرح کے حکم جاری کریں گے۔ جسٹس عاصم حفیظ نے کہا کہ کس طرح گورنر مطمین ہوگا کہ وزیراعلی کے پاس اکثریت موجود ہے۔

جسٹس عابد عزیز شیخ نے ریمارکس دیئے کہ کیا گورنر کے ایسے اقدامات کے خلاف معاملہ عدالت میں آئے گا یا سپیکر اسمبلی فیصلہ کرے گا۔ وکیل بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ اعلی عدالتوں کے فیصلوں کے تحت گورنر اور صدر قانون پر عمل درآمد کے پابند ہیں۔ اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ گورنر کے پاس اختیارحاصل ہے۔

جسٹس عاصم حفیظ نے کہا کہ گورنر ہی وزیر اعلیٰ کو اعتماد کا ووٹ لینے کا کہہ سکتا ہے، آج کیس کا فیصلہ ہوتا ہے کل کو گورنر پھر اسطرح کا حکم جاری کر دیتا ہے تو کیا صورتحال ہوگی۔ جس پر گورنر کے وکیل منصور اعوان ایڈوکیٹ نے کہا کہ معاملہ اسمبلی فلور پر ہی جائے گا۔

جسٹس عاصم حفیظ نے کہا کہ سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر دوبارہ گورنر اعتماد کا ووٹ لینے کا کہے تو اس کے کیا نتاٸج نکلیں گے۔ جسٹس عابد عزیز شیخ نے ریمارکس دیئے کہ اگر گورنر دوبارہ اعتماد کے ووٹ کا کہے تو کس طرح طے کیا جاٸے گا کہ گورنر کی وجوہات قابل اطمینان ہیں، کیا اسمبلی کے ہر سیشن پر گورنر کا اعتماد ہونا ضروری ہے۔

جسٹس عاصم حفیظ نے سوال اٹھایا کہ اعتماد کے ووٹ کا مرحلہ مکمل ہونے کے بعد کیا گورنر اگلے ہفتے پھر یہی عمل دہرا سکتا ہے۔ جس پر وکیل بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ وٹو کیس میں گورنر کا فیصلہ کالعدم ہوگیا تھا۔

جسٹس عابد عزیز شیخ نے استفسار کیا کہ آپ کے خیال میں مناسب وقت یونا چائیے۔ جسٹس عاصم حفیظ نے کہا کہ ہمیں مستقل کے لئے اس معاملے کو دیکھنا ہے۔ جس پر وکیل علی ظفر نے کہا کہ آرٹیکل 136 کے تحت 7 روز کا وقت ہونا چائیے۔

 جسٹس عاصم حفیظ نے ریمارکس دیئے کہ ہم نے دیکھنا ہے کہ کم از کم گورنر کو کتنا مناسب وقت دینا چائیے، اگر 184 لوگ گورنر کے ہاس آجاتے ہیں کہ یہ ہمارے استفعے ہیں، ہھر بھی سپیکر وقت کے تعین میں لگا رہے گا کہ کب اجلاس بلانا یے۔

جسٹس عابد عزیز شیخ نے کہا کہ منظور وٹو کیس میں وقت نہیں دیا گیا تھا۔ جسٹس عاصم حفیظ نے کہا کہ اس کیس کا منظور وٹو کیس سے کوئی تعلق نہیں۔

جسٹس عابد عِزیز نے پرویز الہی کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ مسٹر علی ظفر آپ مناسب وقت کے حوالے سے دلائل دیں۔ جس پر وکیل بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ رولز کے تحت گورنر اجلاس بلا سکتا لیکن وقت کا تعین نہیں کرسکتا۔

جسٹس عابد عزیز شیخ نے سوال اٹھایا کہ آرٹیکل 137 گورنر کو اعتماد کے ووٹ کے لیے نہیں کہتا تو 227 رولز گورنر کو اختیار دیتا ہے۔ جسٹس عاصم حفیظ نے استفسار کیا کیا رولز میں اعتماد کے ووٹ کے لیے گورنر کو تاریخ مقرر کرنے کا اختیار ہے۔ جس پر وکیل بیرسٹر علی ظفر ے کہا کہ اعتماد کے ووٹ کا اختیار عدالت نہیں صرف اسپیکر ہی طے کرسکتا ہے۔

مزیدخبریں