آج کے بلاگ کا آغاز ایک قدیم کہاوت سے کرتا ہوں۔ قصہ کچھ یوں تھا کہ ایک شخص نے ایک مرغا پالا تھا۔ ایک بار اس نے مرغا ذبح کرنا چاہا۔ مالک نے مرغے کو ذبح کرنے کا کوئی بہانا سوچا اور مرغے سے کہا کہ کل سے تم نے اذان نہیں دینی ورنہ ذبح کردوں گا۔ مرغے نے کہا ٹھیک ہے آقا جو آپ کی مرضی!
صبح جونہی مرغے کی اذان کا وقت ہوا تو مالک نے دیکھا کہ مرغے نے اذان تو نہیں دی لیکن حسبِ عادت اپنے پروں کو زور زور سے پھڑپھرا رہا تھا۔ مالک نے اگلا فرمان جاری کیا کہ کل سے تم نے پَر بھی نہیں مارنے ورنہ ذبح کردوں گا۔
اگلے دن صبح اذان کے وقت مرغے نے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے پر تو نہیں ہلائے لیکن عادت سے مجبوری کے تحت گردن کو لمبا کرکے اوپر اٹھایا۔ مالک نے اگلا حکم دیا کہ کل سے گردن بھی نہیں ہلنی چاہیئے، اگلے دن اذان کے وقت مرغا بلکل مرغی بن کر خاموش بیٹھا رہا۔ مالک نے سوچا یہ تو بات نہیں بنی۔
اب کے بار مالک نے بھی ایک ایسی بات سوچی جو واقعی مرغے بے چارے کی بس کی بات نہیں تھی۔
یہ بھی پڑھیے: پرویز الہیٰ، کہانی ختم پیسہ ہضم
مالک نے کہا کہ کل سے تم نے صبح انڈا دینا ہے ورنہ ذبح کردوں گا۔ اب مرغے کو اپنی موت صاف نظر آنے لگی اور وہ بہت زار و قطار رویا۔ مالک نے پوچھا کیا بات ہے؟ موت کے ڈر سے رو رہے ہو؟ مرغے کا جواب بڑا باکمال اور بامعنی تھا۔
کہنے لگا ’نہیں، میں اس بات پر رو رہا ہوں کہ انڈے سے بہتر تھا کہ اذان پر مرتا۔‘
یہ کہاوت اگر موجودہ سیاسی تناظر میں دیکھ لی جائے تو وزیراعلیٰ پرویز الہیٰ ہی وہ مرغا ہیں جن کو ایک کے بعد ایک ٹاسک دیا جارہا ہے پہلے کپتان نے اسمبلی توڑنے کا ٹاسک دیا تو مونس الہیٰ اور پرویز الہیٰ نے عمران خان کی حمایت کا یقین تو دلایا اور کہا کہ وہ اپنے کپتان کے کہنے پر ایک منٹ ضائع کیے بغیر اسمبلی توڑ دیں گے لیکن اگر ہم نے اسمبلی تحلیل کی تو کپتان کو جو سیکیورٹی دی گئی ہے وہ واپس لے لی جائے گی، عمران خان کو گرفتار بھی کیا جاسکتا ہے یہ ایسی دھمکی تھی خود عمران خان بھی ڈانواں ڈول ہوگئے اور باپ بیٹا مزے سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کی وزارت اعلیٰ سے لطف اندوز ہوتے رہے۔
اس پر اپوزیشن نے بھی اسمبلیوں کی تحلیل میں رکاوٹ ڈالنے کیلئے پہلے عدم اعتماد کی تحریک جمع کرائی اور پھر گورنر بلیغ الرخمٰن سے وزیراعلیٰ کو اعتماد کا ووٹ لینے کا نوٹفیکیشن داغ دیا جس کی تکمیل نہ ہونے کی صورت میں وزیر اعلیٰ پرویز الہیٰ کو معطل کرنے کا نوٹفیکیشن رات گئے جاری ہوا اور یوں معاملہ عدالت کی بھینٹ چڑھ گیا جہاں پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر نے گورنر کے اقدام کو ہی غیرآئینی قرار دے دیا اور 11 جنوری کی کچھ طویل تاریخ دے ڈالی یوں نہ مسلم لیگ ن اور پرویز الہیٰ اس ایک پیج پر جمع ہوگئے کہ اسمبلی تحلیل نہ ہو جبکہ عمران خان کو کھلانے کیلئے مونس الہیٰ کا انتخاب کیا گیا جو ایک ایک دن میں تین تین چار چار مرتبہ زمان پارک عمران خان کی رہائش گاہ پر جاتے اور انہیں یقین دلاتے رہے کہ آپ بے فکر رہیں جیسے ہی معاملات بہتر ہوئے اور عدالت سے فیصلہ آیا اسمبلی تحلیل کردی جائے گی۔
یہ بھی پڑھیے: پرویز الہیٰ ، چل میرا پُت پارٹ ٹو
اس دوران کئی ایک مواقع پر ایسی صورتحال بھی رہی کہ پرویز الہیٰ نے سابق آرمی چیف قمر جاوید کو حرف تنقید کا نشانہ بنانے پر عمران خان کو آڑے ہاتھوں لیا اور انہیں سابق آرمی چیف کے احسانات یاد دلائے کہ وہ تو پی ٹی آئی کے پاس باجوہ صاحب کے کہنے پر گئے تھے۔
اس صورتحال میں عمران خان الٹی سیدھی لوٹنیاں لیتے رہے لیکن اب پنجاب کی گاڑی کا سٹیئرینگ چودھری پرویز الہیٰ کے ہاتھ میں آچکا تھا جنہوں نے مہارت کے ساتھ ایسا کھیل کھیلا جس میں اسمبلی ٹوٹنے کے امکان ختم ہوگئے۔
انہوں نے ایک جانب عدالت کو گورنر کے اقدام کو غیرآئینی قرار دینے کیلئے مصروف رکھا تو دوسری جانب اپنے اعتماد کے ووٹ کی تیاری کی اور رات 12 بجے کے بعد نئی تاریخ آتے ہی نیا ایجنڈا دے کر اعتماد کا ووٹ حاصل کرلیا۔
بظاہر اس اعتماد پر مسلم لیگ ن کو شکست ہوئی لیکن دراصل اس میں پرویز الہیٰ کو مضبوط کیا گیا اور بقول رانا ثنا اللہ کے چودھری پرویز الہیٰ نے ناراض اراکین کو اسمبلی تحلیل نہ کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے جس کے بعد انہیں ووٹ ملا ہے۔
اگر یہ بات ہے تو پھر کہا جاسکتا ہے مسلم لیگ ن اور پرویز الہیٰ اسمبلی تحلیل نہ کرنے کے پیج پر اکھٹے ہیں۔ ذرائع کے مطابق اس میں چیئرمین تحریک انصاف کو بھی اعتماد میں لیا گیا ہے اور انہیں بتایا گیا ہے کہ اگر یہ وعدہ نہ کیا گیا تو پھر اپوزیشن کی حکومت ہوگی اور ضمنی انتخاب کا میدان فیصلہ کچھ بھی ہوسکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیے: مون لائٹ سینما کی فلم ، صرف بالغوں کے لیے
عدالتی فیصلے سے پہلے ہی گورنر نے اپنا نوٹفیکیشن واپس لے لیا اور عدالت نے درخواست نمٹا دی، اب پرویز الہیٰ پر پی ٹی آئی کا بھی دباو بڑھ جائے گا جو اسمبلی کی تحلیل کو اپنی کامیابی سمجھتے ہیں بقول فواد چودھری کے عدالتی فیصلہ کے آنے پر اسمبلی تحلیل کردی جائے گی۔
پاکستان تحریک انصاف اور چودھری پرویز الہیٰ میں کہیں نہ کہیں اعتماد کی کمی ہے، سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا فارمولہ ابھی طے نہیں ہوا اور عمران خان بھی یہ دھمکی لگا چکے ہیں کہ اگر اسمبلی تحلیل نہ ہوئی تو اُن کے اراکین اسمبلیوں سے مستعفی ہوجائیں گے۔
ابھی تک تو یہ ایک دھمکی سے زیادہ کچھ نہیں ہے لیکن اگر ایسا ہوا تو الیکشن کمیشن کیلئے ضمنی انتخاب کرانا چنداں مشکل نہیں ہوگا۔
رہی کہاوت والی بات تو اب پرویز الہیٰ کیلئے بڑی مشکل آن پڑی ہے وہ اپنی کرسی بچاتے بچاتے سیاسی میدان میں اُس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ اگر انڈہ دیں گے تو جائیں گے اور نہ دیں گے تو جانا پڑے گا یعنی اب پنجاب کے اس مرغے کو دونوں صورتوں میں قربان ہونا ہے۔ ویسے بہتر تھا کہ اسمبلی تحلیل کی اذان پر قربان ہوتے انڈے والی شرط پر قربان ہونے میں خاندانی سیاسی ساکھ کا بھی جنازہ نکل جائے گا۔