(اظہر تھراج)جب غزہ میں جنگ شروع ہوئی تھی تو سب کا یہی خیال تھا کہ یہ سلسلہ نہیں رکے گا،پھر وہی ہوا جس کا ڈرتھا ،دنوں کی جنگ مہینوں پر محیط ہوچکی ہے،فلسطینیوں کی نسل کشی جاری ہے اور دہشتگرد ریاست اسرائیل اب تک کسی بھی احتجاج ،کسی بھی امن کی کوششوں کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اپنے عزائم کی تکمیل کیلئے آگ اور خون کا کھیل جاری رکھے ہوئے ہے۔غزہ سے شروع ہونیوالا آگ اور خون کا کھیل پھیل گیا ہے،اس کےکیا نتائج نکلیں گے؟
خبر ہے کہ جنگ کی آگ مشرق وسطیٰ میں پھیل گئی ہے، امریکا اور برطانیہ نے یمن میں حوثیوں کے خلاف نیامحاذ کھول دیا، فلسطینیوں کی حمایت میں پیش پیش یمنی حوثیوں کے خلاف امریکی اور برطانوی طیاروں کی بمباری سے دارالحکومت صنعا دھماکوں کی سے گونج اٹھا ہے، یمن کے انقلابی رہنما عبدالمالک بدرالدین الحوثی نے جارحیت کا مقابلہ کرنے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے پیغام دیا ہے کہ دشمن کو میزائلوں اور ڈرونز کا نشانہ بنایا جائے۔
عرب میڈیا کے مطابق لڑاکا طیاروں، بحری جہازوں اور آبدوزوں سے یمن کے دارالحکومت صنعا، بندرگاہی شہر حدیدہ اور شمالی شہر سعدہ پر بمباری کی گئی ہے، حملوں میں ٹام ہاک میزائل بھی استعمال کئے گئے، امریکی صدر جو بائیڈن کا کہنا ہے کہ حملے بحیرہ احمر میں بین الاقوامی جہازوں پر ان حملوں کا جواب ہیں جن میں پہلی بار اینٹی شپ بیلسٹک میزائل استعمال کیے گئے تھے،دوسری جانب برطانوی وزیراعظم رشی سونک نے اپنے بیان میں کہا کہ حوثیوں کو جہازوں پر حملوں سے کئی بار خبردار کیا گیا کہ یہ صورتحال برداشت نہیں کی جاسکتی۔
مسلم دشمن اپنا کام تو اپنے پلان کے مطابق کررہے ہیں لیکن دوسر ی طرف فلسطین کی حالیہ جنگ نے مسلم دْنیا کو بْری طرح بے نقاب کر دیا اور مصلحت نے تمام ممالک کو خاموشی اور بے حسی کی جانب دھکیل دیا ہے۔ ہزاروں فلسطینی عورتوں اور بچوں کی شہادت پر اِسلامی دْنیا کی زبوں حالی کا عالم یہ ہے کہ ابھی تک اسلامی ممالک میں کسی اتحاد یا حمایت کا واضح خاکہ سامنے نہیں آیاجو اسرائیل کو ننگی جارحیت سے روک سکے۔ اور یہ بحث کہ اْمہ حقیقت میں فلسطین کی کیا مدد کرسکتی ہے‘ بھی حالیہ دنوں میں ختم ہوتی جا رہی ہے۔
دْنیا میں تقریباً 57 ممالک اور اْن میں 3 ارب کے قریب مسلمان آباد ہیں لیکن اْن میں اتحاد کا فقدان ہے۔ اْمہ کے اتحاد میں اْنکے اپنے مفادات بڑی رکاوٹ ہیں۔ اْنکی اپنی اپنی مجبوریاں آڑے آتی ہیں۔ اور اْنکے طاقت ور دوست خفا ہوتے ہیں جن کے ساتھ اْنکے طویل مدتی مفادات وابستہ ہیں۔ اس لیے آج تک مسئلہ فلسطین اور اسرائیل کے جاری مظالم پر کوئی توانا آواز یا عملی اقدام نہ اٹھا سکے۔ہم سے اچھاتو ایک غیر مسلم ملک ساوتھ افریقہ ہی جس نے کم سے کم عملی طور پر فلسطینوں کا مقدمہ لڑنے کا بیڑا اٹھایا ہے۔29 دسمبر کو جنوبی افریقہ نے ایک مقدمہ عالمی عدالت انصاف میں دائر کیا ۔جس میں مطالبہ کیا گیا کہ عدالت یہ واضح کرے کہ اسرائیل غزہ میں فلسطینی گروپ حماس کے خلاف کریک ڈاؤن کی آڑ میں مبینہ نسل کُشی کر رہا ہے۔یورپی ملک نیدرلینڈز کے شہر دا ہیگ میں قائم عالمی عدالت انصاف میں اس کیس کی دو روزہ سماعت آج سے شروع ہو گئی ہے، جس میں دنیا بھر سے آئے ججز جنوبی افریقہ اور اسرائیل کے دلائل سنیں گے اور اپنا ابتدائی فیصلہ سنائیں گے۔اس مقدمے میں جنوبی افریقہ نے عدالت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ عارضی یا قلیل مدتی اقدامات کرے جس میں اسرائیل کو غزہ میں اپنی فوجی مہم روکنے کا حکم دیا جائے، غزہ کو معاوضے کی پیشکش کی جائے اور تعمیر نو کے لیے فنڈز فراہم کیے جائیں۔
اس کیس کی آج ابتدائی سماعت ہوئی جس میں جنوبی افریقہ کے نمائندوں کو موقع فراہم کیا گیا کہ وہ اس معاملے پر اپنے دلائل دیں۔عالمی عدالت انصاف میں مقدمے کے آغاز پر جنوبی افریقہ نے غزہ میں اسرائیل کی فوجی کارروائیوں کو فوری طور پر معطل کرنے کا مطالبہ کیا ہے اور کہا کہ اسرائیل فلسطینیوں کے خلاف نسل کشی کر رہا ہے۔ اس کیس کی سماعت دو روز تک جاری رہے گی اور جمعے کو اسرائیل کو بھی موقع فراہم کیا جائے گا کہ وہ اپنا موقف پیش کرے۔سماعت کے اختتام پر عدالت یہ فیصلہ کرے گی کہ اس معاملے پر عبوری حکم نامہ جاری کیا جائے یا نہیں۔دوسری جانب پاکستان نے جنوبی افریقہ کی اس درخواست کی حمایت کی ہے۔ہفتہ وار میڈیا بریفنگ کے دوران ترجمان دفتر خارجہ ممتاز زہرا بلوچ نے کہا کہ ’پاکستان جنوبی افریقہ کی جانب سے غزہ کے فلسطینی عوام کے حق میں اسرائیل کو عالمی عدالت انصاف میں لے جانے کو سراہتا ہے، پاکستان اس حوالے سے جنوبی افریقہ کی حمایت کرتا ہے اور ہم جنوبی افریقہ کے اس قانونی عمل کو بروقت سمجھتے ہیں۔‘
مسلم ممالک ایک عرصہ سے مارہی کھا رہی ہیں،مغرب کمزور مسلمانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ رہا ہے لیکن جو طاقتور ہیں وہ خاموش ہیں ۔یہ خاموشی اسی طرح جاری رہی تو جو جنگ امریکا،برطانیہ اور اسرائیل نے شروع کی ہے اس کے بھیانک نتائج نکل سکتے ہیں ۔