(24 نیوز) اقوام متحدہ کی کونسل برائے انسانی حقوق میں پاکستان کی جانب سے مذہبی منافرت کیخلاف پیش کی جانے والی قرارداد پر منگل کو ہونے والی بحث کے بعد آج (بدھ) کو ووٹنگ کے ذریعے قرارداد منظور کرلی گئی ہے۔
بین الاقوامی خبررساں ادارے روئٹرز کے مطابق قرارداد کے حق میں 28 ممالک نے ووٹ دیا، 12 نے مخالفت کی جبکہ سات ممالک نے ووٹنگ کے عمل میں حصہ نہیں لیا۔
روئٹرز کے مطابق اس قرارداد کی امریکہ اور یورپی یونین نے مخالفت کی، جن کا کہنا ہے کہ یہ انسانی حقوق اور آزادی اظہار کے بارے میں ان کے نقطہ نظر سے متصادم ہے۔
کونسل برائے انسانی حقوق کے ہنگامی اجلاس میں منگل کو سویڈن میں قرآن کو نذر آتش کیے جانے کے واقعے پر بحث ہوئی تھی جس میں پاکستان، سعودی عرب اور ایران سمیت دیگر اسلامی ممالک نے مسلمانوں کی مقدس کتاب کی بے حرمتی کو مذہبی منافرت کو ہوا دینے کے مترادف قرار دیتے ہوئے جوابدہی کا مطالبہ کیا تھا۔
پاکستان کی قرارداد کے مسودے میں مذہبی منافرت کے تمام مظاہر کی مذمت کی گئی ہے اور ذمہ داروں کو احتساب کے کٹہرے میں لانے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔
اس قرار داد میں ریاستوں پر زور دیا گیا ہے کہ وہ ’مذہبی منافرت کی کارروائیوں اور حمایت سے نمٹنے، اسے روکنے اور ان پر مقدمہ چلانے کیلئے قوانین اپنائیں جوکہ امتیازی سلوک، دشمنی یا تشدد پر اکسانے کے مترادف ہیں۔‘
اس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ اقوام متحدہ کے کونسل برائے انسانی حقوق کے سربراہ وولکر ترک منگل کو ہوئی بحث کی روشنی میں ممالک کے قوانین میں خامیوں کی نشاندہی کریں۔
اظہار رائے کی آزادی کے بارے میں فکر مند 47 رکنی کونسل کے کچھ مغربی ممالک نے نظرثانی شدہ الفاظ کا مطالبہ کیا تھا۔
فرانسیسی خبررساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق پاکستان کی جانب سے پیش کی گئی قرارداد پر منگل کو بحث کے بعد امریکہ، برطانیہ سمیت یورپی ممالک نے قرآن کو نذر آتش کرنے کی مذمت کرتے ہوئے ووٹنگ سے خود کو باہر کر لیا تھا جبکہ لندن اور واشنگٹن نے کہا کہ اگر وہ ووٹ کرتے تو قرارداد کے مسودے کے خلاف کرتے۔
چار گھنٹے کی بحث کے بعد منگل کو ووٹنگ ہونے ہی والی تھی، تاہم، وقت ختم ہو گیا، جس کے بعد اب بدھ کو صبح 10:00 بجے کونسل کا اجلاس دوبارہ شروع ہوگا۔
پاکستان کے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے بذریعہ ویڈیو لنک جنیوا کونسل کو بتایا کہ ’ہمیں یہ واضح طور پر دیکھنا چاہیئے کہ یہ کیا ہے؟ مذہبی منافرت پر اکسانے، امتیازی سلوک اور تشدد کو ہوا دینے کی کوشش۔‘
ویڈیو لنک کے ذریعے سیشن سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’قرآن پاک کی جان بوجھ کر بے حرمتی حکومتی اجازت کے تحت اور معافی کے احساس بغیر جاری ہے‘ اور یہ کہ اس طرح کی کارروائیاں ’زیادہ سے زیادہ اشتعال انگیزی‘کے لیے کی گئیں۔
انہوں نے کہا کہ ’ہمیں اس کی مذمت میں اکٹھا ہونا چاہیے اور نفرت کو ہوا دینے والوں کو الگ تھلگ کرنا چاہیے۔‘
بلاول بھٹو نے مزید کہا کہ ’قرآن پاک کی بے حرمتی کے سرعام اور سوچے سمجھے عمل سے مسلمانوں کو پہنچنے والے گہرے نقصان کو سمجھنا ضروری ہے۔ یہ ان کے ایمان پر حملہ ہے۔‘
ایران، سعودی عرب اور انڈونیشیا کے وزرا کی طرف سے اس کی حمایت کی گئی اور اسے ’اسلام فوبیا‘ کا فعل قرار دیا گیا۔
جرمنی کی سفیر کیتھرینا سٹاش نے قرآن نذر آتش کرنے کے عمل کو ’خوفناک اشتعال انگیزی‘ قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی۔ ساتھ ہی انہوں نے کہا: ’آزادی اظہار کا مطلب بعض اوقات ایسی رائے کو برداشت کرنا بھی ہوتا ہے جو تقریباً ناقابل برداشت لگتی ہیں‘۔
فرانس کے ایلچی نے کہا کہ انسانی حقوق لوگوں کے تحفظ سے متعلق ہیں نہ کہ مذاہب اور ان کی علامتوں کے۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ وولکر ترک نے کونسل کو بتایا کہ مسلمانوں کے علاوہ دیگر مذاہب یا اقلیتوں کے خلاف اشتعال انگیز کارروائیاں ’جارحانہ، غیر ذمہ دارانہ اور غلط‘ ہیں۔