(24نیوز)وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کچھ عناصر پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات کے تاریخی تعلقات میں دراڑ ڈالنا چاہتے تھے جن کے عزائم خاک میں مل گئے، ان کے ارادوں پر اوس پڑگئی اور مستقبل کی سمت طے ہوگئی۔
تفصیلات کے مطابق ملتان میں نیوز کانفرنس کے دوران وزیراعظم عمران خان کے دورہ سعودی عرب کے حوالے سے وزیر خارجہ نے کہا کہ ولی عہد محمد بن سلمان کی دعوت پر وزیراعظم نے 3 روزہ دورہ کیا۔انہوں نے کہا کہ پہلے سعودی عرب کے ساتھ ہمارے سیاسی اور تزویراتی سطح پر اچھے تعلقات تھے لیکن ایڈہاک انتظام تھا یعنی اس وقت کے فرمانروا اور اس وقت کے وزیراعظم کے درمیان رابطوں کی صورت میں رفتار آجاتی تھی۔
انہوں نے کہا کہ لیکن اب ہم نے جو معاہدہ کیا ہے اس میں انسٹیٹیوشنل ارینجمنٹ یعنی ایک میکانزم طے کرلیا ہے جس پر وزیراعظم عمران خان اور سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے خود دستخط کیے جسے سعودی پاکستان اسٹریٹیجک کوآرڈینشین کونسل کہتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اس کے تحت باقاعدہ ادارہ جاتی رابطے ہوں گے جس کے تین ستون ہوں گے، ایک سیکیورٹی اور سیاسی ستون ہے جس کی سربراہی پاکستان کا وزیر خارجہ کرے گا، دوسرا ستون معیشت سے متعلق ہے جس کی سربراہی پاکستان کا وزیر خزانہ کرے گا جبکہ تیسرا ستون ثقافتی رابطوں میں تعاون کی سربراہی پاکستان کا وزیر ثقافت کرے گا،
وزیر خارجہ نے کہا کہ طے کیا گیا کہ ہم نے اپنے تعلقات کو معاشی تعاون کی جانب نئی سمت دینی ہے، کشمیر اور دیگر معاملات پر سعودی عرب ہمارا ساتھ دیتا رہا ہے لیکن معاشی فٹ پرنٹ ابھی تک محدود تھا۔انہوں نے مزید کہا کہ ولی عہد محمد بن سلمان کے وژن 2030 کے تحت سعودی عرب میں سرمایہ کاری کی جائے گی جس کے لیے انہیں بے پناہ نئی افرادی قوت درکار ہوگی، اس میں طے کیا گیا ہے کہ اس میں ایک مخصوص کوٹہ پاکستان کے لیے وقف کیا جائے گا، جس سے لاکھوں پاکستانیوں کے لیے روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ سعودی عرب میں 5 معاہدے ہوئے جن میں ایک اہم معاہدہ یہ ہے کہ سعودی عرب نے پن بجلی کے منصوبوں کی مد میں پاکستان کو 50 کروڑ ڈالر دینے کا فیصلہ کیا ہے۔شاہ محمود قریشی نے کہا کہ دورے کا ایک دوسرا پہلو مذہبی تھا جس کے لیے ان کا جتنا شکریہ ادا کیا جائے کم ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ مکہ میں او آئی سی کے سیکریٹری جنرل کے ساتھ ملاقات میں وزیراعظم نے مسلمانوں کے جذبات کی عکاسی کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ اس پلیٹ فارم پر امہ کو یکجا کرنے کی ضرورت ہے، اکیلے اٹھائی گئی آواز کو وہ وزن نہیں ملے گا لیکن جب 57 ممالک مل کر آواز اٹھائے گے تو اسے نوٹس کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ ہم نے ناموس رسالتﷺ کا معاملہ اٹھایا اور مغرب کے انتہا پسند طبقے کی جانب سے گستاخانہ خاکوں، اسلامو فوبیا کے تدارک کے لیے مشترکہ محاذ کے سلسلے میں بات کی گئی اور ایک لائحہ عمل مرتب کیا گیا ۔
یہ بھی پڑھیں: تاریخی مقامات کو مزید پُرکشش بنایا جائیگا،چودھری محمد سرور