(24 نیوز) اسلام آباد ہائیکورٹ نے القادر ٹرسٹ کیس میں چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی درخواست ضمانت دو ہفتوں کےلیے منظوری کرلی، عدالت نے 9 مئی کے بعد دائر ہونے والے تمام مقدمات میں 17 مئی تک گرفتاری سےبھی روک دیا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس میاں گل حسن اور جسٹس ثمن رفعت نے کیس پر سماعت کی، القادر ٹرسٹ کیس کی سماعت کمرہ عدالت نمبر 2 میں منتقل کر دی گئی تھی، عمران خان ہائیکورٹ کے کمرہ عدالت نمبر دو میں موجود رہے۔ وقفے کے بعد دوبارہ سماعت شروع ہونے پر عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ کیس کی انویسٹیگیشن شروع ہوتے ہی گرفتاری کی کوشش کی گئی، نیب قانون کے تحت انکوائری رپورٹ فراہم کرنے کا پابند ہے، ہمیں انکوائری رپورٹ فراہم نیہں کی گئی، عمران خان کو گرفتار کر لیا جائے گا تب انکوائری رپورٹ دی جائے گی، ضمانت قبل از گرفتاری اور حفاظتی ضمانت درکار، ہم درخواست 9 مئی کو دائر کر رہے تھے کہ عمران خان کو گرفتار کر لیا گیا، وارنٹ گرفتاری تب جاری ہوتے ہیں جب بار بار بلانے پر ملزم حاضر نہ ہو۔
یہ بھی پڑھیں: جلاؤ گھیراؤ کا معاملہ،پی ٹی آئی کے 41 کارکنوں کی عبوری ضمانت منظور
وکلا کے دلائل اور دیگر افراد کے بیانات قلم بند کرنے کے بعد عدالت نے عمران خان کی دو ہفتوں کیلئے عبوری ضمانت منظور کر لی اور جسٹس حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیئے کہ آئندہ سماعت پر ہم کیس سنیں گے اور فیصلہ کرینگے، آئندہ سماعت پر دلائل سن کر ضمانت منظوری یا خارج کرنے کا فیصلہ کرینگے، نیب پراسیکیوشن آئندہ سماعت پر مکمل تیاری کر کے آئیے گا، پراسیکیوٹر نیب کی عدالتی آرڈر کے بعد مزید بات کرنے کی کوشش تو جسٹس حسن اورنگزیب نے کہا کہ آپ خاموش رہیں، عدالت نے آرڈر کر دیا ہے۔
علاوہ ازیں اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس حسن اورنگزیب نے چیئرمین پی ٹی آئی کی مختلف مقدمات میں ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست پر سماعت کی۔ عدالت نے 9 مئی کے بعد دائر ہونے والے تمام مقدمات میں 17 مئی تک گرفتاری سے روک دیا۔
یہ بھی پڑھیں: دوران احتجاج سرکاری املاک کو کتنا نقصان ہوا؟ رپورٹ تیار
وکیل عمران خان بیرسٹر سلمان صفدر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اس درخواست ضمانت پر رجسٹرار آفس کا اعتراض ہے، 9 مئی کو 2 کیسز میں ہائیکورٹ پیش ہونا تھا، عدالت نے پہلے بھی دو ضمانت کے کیسز کچہری کو نہیں بھجوائے بلکہ اپنے پاس رکھے، استدعا ہے کہ اس کیس کو بھی ہائیکورٹ میں ہی سنا جائے۔
دوسری جانب پنجاب پولیس کے ڈی آئی جی لیگل کامران عادل ہائیکورٹ پہنچ گئے، ڈی آئی جی لیگل تفتیشی افسران، گرفتاری کے لیے نفری کے ہمراہ پہنچے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: عدلیہ کو سوموٹو کی عادت پڑی گئی،کسی کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جائے گی :شہباز شریف
ایڈووکیٹ جنرل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 245 کے تحت فوج کو طلب کیا گیا ہے، جس طرح کے پرتشدد واقعات ہوئے اسکے بعد فوج کو طلب کیا گیا، آئین کا آرٹیکل 199 آرٹیکل 245 سے مشروط ہے۔ جس پر جسٹس حسن اورنگزیب نے ریماکس دیتے ہوئے کہا کہ کیا یہاں مارشل لاء لگ گیا ہے جو ہم کیسز پر سماعت روک دیں؟ جدون صاحب اس نکتے کو چھوڑ دیں اور آگے چلیں، کیا آپ کہتے ہیں کہ ہم تمام کیسز کو چھوڑ دیں اور چلے جائیں؟اس کے بعد عدالت نے نیب کے تفتیشی افسر کو روسٹرم پر طلب کر لیا۔
پراسیکیوٹر نیب سردار مظفر نے عدالت کو بتایا کہ عمران خان ایک بار بھی انکوائری میں شامل نہیں ہوئے، عمران خان نے خود کو کبھی بھی انکوائری کیلئے سرینڈر نہیں کیا، اس کیس میں شہزاد اکبر، میاں محمد سومرو، ملک ریاض اور زلفی بخاری کو نوٹس جاری کئے گئے۔
یہ بھی پڑھیں: دوران احتجاج اپنا دوپٹہ پھینکنے اور گرفتار ہونے والی لڑکی کون تھی؟
بشری بی بی کی ضمانت کی درخواست پر سماعت شروع ہوئی تو وکیل نے کمرہ عدالت میں عمران خان کے حق میں بلند آواز نعرے لگا دیے، جس پر یہ وکیل ہم میں سے نہیں اسے حراست میں لے لیں۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ اگر ایسا رویہ ہو گا تو ہم یہ کیس نہیں سنیں گے، عدالت نے نعرے بازی پر عمران خان اور بشری بی بی کی درخواستوں پر سماعت موخر کر دی، عدالت نے عمران خان اور بشری بی بی کی درخواستوں پر سماعت جمعہ کے بعد تک موخر کی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: ریاست کی عملداری کو یقینی بنانے کیلئے ہر حد تک جائیں گے: شہباز شریف
عمران خان کی کمرہ عدالت میں غیررسمی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ خدشہ ہے کہ ہائیکورٹ سے نکلتے ہی مجھے دوبارہ گرفتار کر لیں، مجھے بشری بی بی سے فون پر بات کرنے کی اجازت دی گئی تھی، بشری بی بی سے بات نہیں ہو سکی۔ میں نے متعدد بار ایک شخص کو پیعام بھجوایا کہ مجھے اسے ڈی نوٹیفائی نہیں کرونگا، مجھ پر جوڈیشل کمپلیکس میں دوسری بار قاتلانہ حملہ کیا گیا، میں اگر جوڈیشل کمپلیکس کے اندر چلا جاتا تو مجھے قتل کر دیا جاتا، جوڈیشل کمپلیکس پر آئی ایس آئی کا مکمل کنٹرول تھا، مجھے گرفتاری کے وقت سر پر ڈنڈا مارا گیا، نیب کا رویہ میرے ساتھ ٹھیک تھا۔
چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کمرہ عدالت میں موجود افراد سے مخاطب ہو ئے کہ کمرہ عدالت میں موجود تمام لوگ ڈسپلن کا خیال رکھیں، پہلے یہاں ایک پلانٹڈ شخص کی وجہ سے ہمیں بہت نقصان ہوا ہے۔ ایڈووکیٹ جنرل نے پلانٹڈ شخص کہنے پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ آپ کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ وہ پلانٹڈ شخص تھا۔ عمران خان نے ایڈووکیٹ جنرل سے معذرت کر تے ہوئے کہا کہ ’’جدون صاحب میں اپنے الفاظ واپس لیتا ہوں‘‘۔
یہ بھی پڑھیں: عمران خان نے بشریٰ بی بی سے بات کرنے کے بجائے مسرت چیمہ کو کال کیوں کی ؟
عمران خان کو گرفتاری کا خدشہ، اپنی لیگل ٹیم سے رابطہ کر لیا، پنجاب پولیس مجھے گرفتار کرنے باہر کھڑی ہے، میں آپ کو تمام صورتحال سے آگاہ کر رہا ہوں، اگر دوبارہ گرفتار کیا تو پھر وہی رد عمل آئے گا، میں نہیں چاہتا کہ پھر سے وہی صورتحال ہو۔
قبل ازیں عمران خان کی بائیومیٹرک کا عمل مکمل کر لیا گیا، انہیں سپریم کورٹ کی جانب سے پیش ہونے کی ہدایت کی گئی ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ میں القادر ٹرسٹ سے متعقل کیس میں عمران خان کی درخواست ضمانت دائر کردی گئی ہے۔ درخواست میں چیئرمین نیب کو فریق بنایا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: افواجِ پاکستان ،ملکی املاک کے نقصان پر کالعدم دہشتگرد تنظیم کی پی ٹی آئی کارکنان کو مبارکباد
سابق وزیر اعظم اور چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی گرفتاری کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے سپریم کورٹ نے فوری رہائی کا حکم جاری کر دیا تھا۔ سپریم کورٹ نے عمران خان کو پولیس لائنز گیسٹ ہاؤس رکھنے کی ہدایت کرتے ہوئے آج دوبارہ اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کا حکم بھی دیا تھا۔
عمران خان اور بشریٰ بی بی کی ضمانت کی درخواستوں پر سماعت کیلئے بنچ تشکیل دیا گیا تھا۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس حسن اورنگزیب اور جسٹس ثمن رفعت سماعت کی، انصاف لائرز ونگ کی احاطہ عداکت میں نعرے بازی کی تھی، عمران خان کو حفاظتی بالٹی کے بغیر لے جایا گیا تھا، عمران خان خود صحیح سلامت چل کر عدالت میں گئے، قیدی وین بھی عدالت کے باہر پہنچا دی گئی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: وہیل چیئر نہ حفاظتی بالٹی،عمران خان خود چل کر کمرہ عدالت پہنچے
عمران خان رینجرز کی بھاری نفری کے گیرے میں کمرہ عدالت لے جایا گیا، وکلاء کی شدید نعرے بازی ’’ہم لے کے رہیں گے آزادی‘‘ ۔ عمران خان نے مسکرا کر وکلاء کے نعروں کا جواب دیا، عمران خان پرسکون انداز میں سیکیورٹی فورسز کے ہمراہ کمرہ عدالت پہنچے اور بائیومیٹرک بھی کروائی، کمرہ عدالت وکلاء اور صحافیوں سے بھر گیا، کمرہ چھوٹا ہونے پر عمران خان کو دوسرے کمرہ عدالت میں پیش کیے جانے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ بعد ازاں سیکیورٹی کلیئرنس کیلئے کمرہ عدالت خالی کروا لیا گیا، کمرہ عدالت میں موجود تمام افراد کو کمرہ عدالت سے باہر نکال دیا گیا اور ہایکورٹ کے باہر سے خواتین کارکن کو بھی گرفتار کر لیا گیا۔
دوسری جانب اسلام آباد ہائیکورٹ میں القادر ٹرسٹ سے متعقل کیس میں عمران خان کی درخواست ضمانت دائر کردی گئیں تھی۔ درخواست میں چیئرمین نیب کو فریق بنایا گیا۔عمران خان کی حفاظتی ضمانت کیلئے مزید درخواستیں بھی دائر کر دی گئیں، درخواست میں مؤقف اپنایا گیا کہ عمران خان کے خلاف درج خفیہ مقدمات کی تفصیلات فراہم کی جائیں اور تمام مقدمات کو یکجا کر دیا جائے۔ درخواستیں عمران خان کے وکیل سلمان صفدر نے دائر کیں۔
یہ بھی پڑھیں: عمران خان کی رہائی، ملک میں انٹرنیٹ سروس کی بحالی سے متعلق وزیر داخلہ نے اعلان کر دیا
واضح رہے کہ گزشتہ روز عمران کی گرفتاری کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا تھا۔ عمران خان کی گرفتاری کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس کے سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے عمران خان کو پولیس لائن گیسٹ ہاؤس میں رہنے کا حکم دیا تھا۔ سابق وزیر اعظم 15 گاڑیوں پر مشتمل سیکیورٹی قافلے کی زیرِ نگرانی سپریم کورٹ کورٹ لایا گیا تھا اور عدالت نے سیاسی رہنماؤں اور ورکرز کو سپریم کورٹ آنے سے منع کیا تھا۔
عدالت عظمیٰ نے عمران خان کی فوری رہائی کا حکم دیتے ہوئے ہدایت کی تھی کہ اسلام آباد ہائی کورٹ جو بھی فیصلہ دے گا وہ ماننا ہو گا۔
یہ بھی پڑھیں: توشہ خانہ کیس دوسری عدالت کو منتقل کرنے کی درخواست پر سماعت
آئی جی اسلام آباد عمران خان کی اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیشِ کے مدِ نظر پولیس لائنز گیسٹ ہاؤس پہنچ گئے تھے۔ عمران خان کی پیشی کیلئے اسلام آباد ہائی کورٹ کے راستوں کی سیکیورٹی کو یقینی بنایا۔ آئی جی اسلام آباد نے معاملے کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے سیکیورٹی انتظامات کا خود جائزہ لیا اور سیکیورٹی قافلے کی سربراہی بھی خود کی۔
ہائیکورٹ کے اطراف میں سکیورٹی کے سخت انتظامات ہیں، رینجرز ، ایف سی اور پولیس کی بھاری نفری تعینات کی گئی، تھری لئیر سکیورٹی میں صرف مخصوص لوگوں کو ہائیکورٹ جانے کی اجازت دہ گئی، کارکنان کو ہائیکورٹ جانے والے راستے سے ہٹا دیا گیا تھا، کنٹینرز لگا کر بھی مختلف راستوں کو بند کیا گیا، خاردار تاریں لگا کر بھی راستوں کو محدود کیا گیا تھا۔
مرکزی رہنما پی ٹی آئی مراد سعید نے سماجی رابطوں کی ویب سائیٹ ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کہا ہے کہ ’’عوام پرامن طور پر G-13 اسلام آباد جمع ہوں، خان صاحب کی سیکیویٹی کو مدنظر رکھیں۔ یہ احاطہ عدالت سے عمران خان کو گرفتار نہیں کرسکتے آج یہ انتشار پھیلا کر انہیں جان سے مارنے کے اپنے ناپاک منصوبے پر عملدرآمد کرنے کی کوشش کرسکتے ہیں ہمیں انہیں ایسا کوئی بھی موقع نہیں دینا۔ یاد رکھیں ہمارا مقابلہ خون آشام درندوں سے ہے ہمیں حکمت سے کام لینا ہوگا‘‘۔