(24 نیوز)ایسا محسوس ہورہا ہے کہ جیسے حکومت امریکا میں منتخب ہونے والی نئی انتظامیہ سے تعلقات کو بڑھانے کیلئے بے قرار ہے۔وزیر اعظم شہباز شریف نے ڈونلڈ ٹرمپ کو صدارتی الیکشن جیتنے پر اپنی ٹویٹ کےذ ریعے مبارکباد تو پیش کی ۔لیکن ابھی تک وزیر اعظم شہباز شریف کا نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے کسی قسم کا کوئی ٹیلیفونک رابطہ نہیں ہوسکا۔اب ظاہر ہے مبارکباد تو ٹرمپ نے وصول کرنی ہے اور اِس کیلئے ضروری ہے کہ وزیر اعظم خود فون کرے اُنہیں مبارکباد دے۔لیکن ایسا لگ رہا ہے جیسے حکومت گومگو کا شکار ہے ۔
پروگرام’10تک‘کے میزبان ریحان طارق نے کہا ہے کہ ٹرمپ نے پہلے ہی بھارتی وزیر اعظم مودی، سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اور دیگر رہنماؤں سے ٹیلیفونک گفتگوکرلی ہے۔ یہ رواج ہے کہ عالمی رہنما نئے امریکی صدر کو ٹیلی فون کرکے اُنہیں مبارکباد دیتے ہیں۔ لیکن ہم نے دیکھا کہ صدر جو بائیڈن نے اِس روایت کو توڑ دیا تھا اور نومبر 2020 میں صدارتی الیکشن جیتنے کے بعد اُنہوں نے کبھی کسی پاکستانی وزیر اعظم سے بات نہیں کی تھی۔اور اب ایسا نہ ہو شاید اِس لئے حکومت ٹرمپ سے رابطے بڑھانا چاہتی ہے،۔اور اِس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ماضی میں ن لیگ پی ٹی آئی حکومت کو یہ طعنہ دیتی تھی کہ صدر جوبائڈن نے بانی پی ٹی آئی کو فون نہیں کیا۔اور اِس سے بھی بڑھ کر یہ کہ ماضی میں ن لیگ کے کئی رہنماؤں نے ڈونلڈ ٹرمپ پر کڑی تنقید بھی کی ۔اور اُن کا موازنہ بانی پی ٹی آئی سے بھی کیا ۔اب یہی وجہ ہے کہ حکومت کو یہ خدشہ ہے کہ کہیں ڈونلڈ ٹرمپ اُس کو نظر انداز ہی نہ کردیں ۔
اب حکومت اپنی خفت مٹانا چاہتی ہے۔اور یہی وجہ ہے کہ پاکستان نے آنے والی امریکی انتظامیہ کے ساتھ جلد رابطہ قائم کرنے کی کوششوں کے تحت ٹرمپ کی عبوری ٹیم تک پہنچنے کا فیصلہ کرلیا ہے ۔ پاکستان نے ملکی مفادات کو نقصان سے بچانے کیلیے ٹرمپ کی ٹرانزیشن ٹیم سے جلد رابطہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔سرکاری ذرائع کے مطابق وزیر اعظم شہباز شریف امریکی نو منتخب صدر ٹرمپ سے ذاتی طور پر بات کرکے اُنہیں مبارک باد دینے اور ان کی انتظامیہ کے ساتھ براہ راست رابطے کا چینل کھولنے کے خواہشمند ہیں۔ اس مقصد کیلیے واشنگٹن میں پاکستانی سفارت خانہ جلد ہی ٹرمپ کی عبوری ٹیم سے رابطہ کرکے نئے امریکی صدر کے ساتھ ٹیلی فونک گفتگو کے لیے درخواست کرے گا۔اب ٹرمپ کی جیت کے بعد سے بانی پی ٹی آئی کے حامیوں کا خیال ہے کہ ٹرمپ ان کے لیڈر کی رہائی کو یقینی بنانے کے لیے شہباز شریف کو فون کریں گے۔
تاہم دفتر خارجہ نے ایسی قیاس آرائیوں کو مسترد کردیا ہے اور کہا ہے کہ پاکستان کو توقع ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ پاکستان کے ساتھ باہمی احترام اور ایک دوسرے کے اندرونی معاملات میں عدم مداخلت کی بنیاد پر دوطرفہ تعلقات کو جاری رکھے گی۔اب ڈونلد ٹرمپ بانی پی ٹی آئی کی رہائی میں کوئی کردار ادا کرسکتے ہیں اِس حوالے سے بھی یہ تاثر اُبھر رہا ہے کہ حکومت ڈونلڈ ٹرمپ سے اپنے معاملات سیدھا کرنا چاہتی ہے تاکہ ٹرمپ بانی پی ٹی آئی سے ممکنہ رہائی کا مطالبہ ہی نہ کریں ۔اور یہی وجہ ہے کہ اب سعودی عرب میں میل ملاقاتوں کو اِس سے جوڑا جارہا ہے ،وزیر اعظم شہباز شریف کا دورہ سعودی عرب اور پھر اُس کے بعد چیف آف آرمی اسٹاف کی سعودی عرب آمد اور سعودی ولی عہد سے ملاقات اور پھر اِس کے بعد دوبارہ وزیراعظم شہباز شریف کا سعودی عرب جانا کچھ ہلچل کی طرف اشارہ کرتا ہے۔پھر اِسی طرح نواز شریف کا لندن سے امریکا اور امریکا سے لندن اورپھر لندن سے سوئیزر لینڈ جانا اور مولانا فضل الرحمان کا لندن میں موجود ہونا پتہ دے رہا ہے کہ آخر کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے؟