پاکستان کے یوسف اور برادرانِ یوسف

سجاد اظہر پیرزادہ

Oct 12, 2023 | 12:46:PM

کبھی کسی کے لخت کو اس کے جگر سے جدا کرنے کے انداز میں۔ تو کبھی کسی ملک میں اللہ کی دھرتی پر بسیرا کرنے والوں کے چہروں سے مسکراہٹ نوچ لینے کی صورت میں۔ مصر ہو یا پاکستان۔ برادرانِ یوسف کی مہربانیوں کے ہر طرف چرچے ہیں۔ ایسوں ایسوں کی ایسی ایسی مہربانیاں کہ خدا کی پناہ!
آ رہی ہے چاہِ یوسف سے صدا
دوست یاں کم ہیں اور بھائی بہت!
کل شب' بہت دیر تک "چاہِ یوسف سے صدا" میری تنہائی کی ساتھی بنی رہی۔ یہ کتاب پاکستانی سیاست کے بیتے دنوں کے ایسے ایسے نامہربان قصے سناتی رہی' حیرت ہے کہ جس کا مصنف اِن قصوں کا مظلوم کردار رہ کر بھی اپنا برا چاہنے والوں کی راہ میں کانٹے بونے کی بجائے' پھولوں کی آبیاری کا شوق رکھتا ہے۔ جس کے لان میں اس کے اپنے ہاتھوں سے لگائے پھولوں سے صرف اسی کا اپنا ہی گھر نہیں' پڑوسیوں کے مکان بھی مہکتے رہتے ہیں۔ صرف مکانوں کی فضائیں ہی نہیں' بلکہ اس کے انداز سیاست سے سارا پاکستان،سرزمینِ پاک کے پڑوسی ممالک اور اس سے پرے ایک جہان' یوسف رضا گیلانی کی دانشمندی، کردار، گفتار، وفا شعاری اور انسان دوستی سے پُر مثالی فضائوں میں جیو اور جینے دو کے شاہانہ انداز سیکھتا ہے۔ یہ دنیا اسی کی ہے' جو بڑوں کی عزت اور چھوٹوں پر شفقت کرتا ہے۔ مصر کے یوسفؑ نے خود کو کنویں میں پھینکنے والے اپنے برادران کیساتھ حسن سلوک کیا۔ پاکستان کا یوسف خود کو نااہل کرنے والے چیف جسٹس کی دعوت پر اسکی بیٹی کی شادی میں شرکت کرنے جا پہنچا تھا۔ مخلوق خدا آج برادران یوسف کو نہیں' یوسفؑ کو تحسین آمیز کلمات میں یاد رکھتی ہے۔ کسی جسٹس اینڈ ڈیموکریٹک پارٹی کا صدر افتخار چودھری یاتحریک پاکستان کیخلاف سیاست کرنیوالا ملتان کا پی ٹی آئی سے منسلک کوئی قریشی خاندان نہیں' بلکہ انگریزوں کیخلاف صدیوں سے مزاحمت کرکےاپنےہم وطنوں کیساتھ کھڑے ہونےوالے گیلانی خاندان کا چشم و چراغ یوسف رضا گیلانی پاکستان کے لوگوں کی نگاہ  انتخاب ٹھہرتا ہے۔
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملّت کے مقدّر کا ستارا
10 مئی 1857 کو' اس دھرتی کے ہر اِک فرد کے ہاتھ میں اپنی پوری قوم کی تقدیر آئی تھی۔ ہندو تھے یا سکھ، مسلم تھے یا دیگر مذاہب کے ہندوستانی' سب نے ملکر اپنی مغل بادشاہت،اپنا ملک ہندوستان اور اپنے 18 کروڑ ہم وطنوں کو غلامی سے بچانے کیلئے انگریز کیخلاف آزادی کی پہلی مسلح جنگ لڑی تھی۔ پاکستان تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کے دادا کے والد شاہ محمود قریشی نے اس جنگ میں مگر اپنے ملک اور اپنے لوگوں کی بجائے حملہ آور غیرملکی انگریزوں کا ساتھ دینےکافیصلہ کیا۔ پنجاب سے 81 سال کے رائے احمد خان کھرل شہید غلامی قبول کرنے سے انکار کرکے اپنے ہم وطنوں کے ہمراہ جنگ میں شریک ہوگئے۔ شاہ محمود قریشی نے اپنے مریدوں کو رائے احمد خان کھرل کے لشکر میں شامل کرادیا۔ 21 ستمبر 1857 کو شاہ محمود قریشی نے لشکر میں شامل اپنے مریدوں کی خبر پر انگریزوں کو مخبری کی کہ ان کا دشمن عصر کی نماز میں مصروف ہے۔ حملہ کرنے کا اچھا موقع ہے۔ گوگیرہ میں تعینات ایڈیشنل اسٹنٹ کمشنر جیرالڈ برکلے خود موقع پر پہنچا اور سجدے کی حالت میں موجود رائے احمد خان کھرل شہید پر گولیاں برسادیں۔ برکلے نے 1857 کی جنگ کے قومی ہیرو کا سر کاٹا۔ اور علاقے کی جیل کے باہر جاکر لٹکادیا۔ اس سر کے بدلے شاہ محمود قریشی کو اتنی جاگیریں دی گئیں کہ اس کی نسل آج بھی اس حقیر زمین کے پیسے کے بل بوتے پر پاکستانیوں پر رعونت بھرے انداز میں حکمرانی کرنا اپنا حق سمجھتی ہے۔ شاہ محمود قریشی جیسوں کی وجہ سے 87 سال کے آخری بادشاہ بہادرشاہ ظفر کو نہایت ذلت آمیز انداز میں اپنے ہتھیار کیپٹن ولیم ہڈسن کے حوالے کرنے پڑے۔ اُس دن 21 ستمبر 1857 کو'پوری دنیا نے ہندوستان میں مسلمانوں کی عظیم الشان مغل سلطنت کا سورج ڈوبتے دیکھا۔ اور اس دھرتی کے مل جل کر رہنے والے 18 کروڑ خوشحال افراد کے مقدر کا ستارہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے تفرقہ کی کھائی میں غرق ہوگیا۔ قریشی خاندان کی اپنی سرزمین اور اپنے لوگوں کیساتھ بےوفائی ک ایک بڑا دلچسپ ثبوت یہ ہے کہ اسی شاہ محمود قریشی کے نام پر وائس چیئرمین پی ٹی آئی کا نام رکھا گیا۔ پھر کیسا رونا اور پیٹنا کہ 9 مئی کو اپنی ہی فوجی تنصیبات پر حملے کیوں کیے گئے!۔ سب کچھ جان کر بھی' جنہوں نے 3 سال 7 ماہ اور 24 دن تک'عمران خان سمیت دیگر برادرانِ یوسف کو حکومت دیے رکھی۔ وہ سب بھی پاکستانی قوم پر بداخلاقی اور مہنگائی کی بجلیاں گرنے کے برابر کے ذمہ دار ہیں۔ 17اگست 2018 سے 9 اپریل 2022 تک' 10 برادران یوسف نے 23 کروڑ 10 لاکھ اور 40 ہزار پاکستانیوں کی تقدیر اتنی خراب کی' جتنی اب جیل میں یا گھروں اور سڑکوں پر خود انہی کی ہے!۔ عمران خان اور ان کے رشکِ قمر و فیض آباد نے پاکستان اور اس سزمین پر بسنے والے اللہ کے کروڑوں بندوں کو معاشی اور اخلاقی تباہی کے ایسے کنویں میں لاپھینکا ہے' اگر اسماعیلی تاجروں کا ایک قافلہ مصر جاتے ہوئے یہاں سے گزرے' اور پانی پینے کیلئے کنویں میں ڈول ڈالے تو خوش و خرم پاکستانیوں کی جگہ دھنسی ہوئی آنکھیں،پچکےہوئےگال باہر نکلیں گے' جو مصر کے بازار میں نیلام کرنےکے قابل بھی نہیں۔

ضرورپڑھیں:الیکشن نہ ہوئے تو کیا ہوگا؟
یہ اب سوشل میڈیا کا زمانہ ہے۔ پاکستان سے ایک پوسٹ یا ایک ٹویٹ' دیکھتے ہی دیکھتے دنیا بھر میں پھیل جاتی ہے۔ وہ تہذیب، وہ اردو زباں' جس کے بل پر ہم دنیا بھر میں گردن تان کر چلتے تھے۔ ان دنوں سوشل میڈیا کے ذریعے کو بہ کو پھیلی ہماری شہرت کے سبب ادھ مو ہے۔ وہ مشرقی روایات' جس کا چولا پہن کر ہم مغرب کو ادب آداب،شرم و حیا سے روشناس کرواتے تھے۔ اب ہم سے آزردہ خاطر ہے۔ ایک مشرقی روایات کی علمبردار جماعت نے حکومت سے نکالے جانے پر' ایسے ایسے الفاظوں سے طوفان بدتمیزی سوشل میڈیا پر برپا کیا' کہ ایک لمحے کو شک سا گزرا کہ کیا ہم وہی قوم ہیں'کہ جس کی قومی زبان کی عظمت کی ایک داستان' اسی سوشل میڈیا کے ایک پلیٹ فارم یوٹیوب چینل سجاد پیرزادہ پر' انڈین سپریم کورٹ کے سابق معروف جج جسٹس کاٹجو مجھ خاکسار کو دوران انٹرویو سنارہے تھے۔ یہ وہ ہنگامہ خیز وقت تھا۔ جب ہندوستان میں دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے انتہاپسند ہندو ٹولے نے' ہندی کو نافذ کرنے اور سیاست چمکانے کیلئے مسلمانوں کیساتھ عداوت میں اردو زبان کو انڈیا سے ختم کرنیکی مہم چلائی ہوئی تھی۔ اُس وقت جسٹس کاٹجو نے کہا: اردو زبان میں جتنی طاقت ہے،جتنی عظمت ہے،جتنی وسعت ہے وہ ہندی بھاشا میں نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ دلوں اور دماغوں پر بھی مثبت طور پر اثرانداز ہوتی ہے۔ انکشاف کیا کہ وہ جب انڈین سپریم کورٹ کے جج تھے' کسی نے انکی کورٹ میں اپیل دائر کی کہ پاکستان کی ایک جیل میں قید اس کے عزیز کو رہا کروانے کیلئے پاکستانی حکومت کو ہدایت جاری کی جائے۔ درخواست گزار کو جواب دیا گیا کہ: پاکستانی حکومت انڈین سپریم کورٹ کے دائرے میں نہیں آتی۔ جسٹس کاٹجو نے بتایا کہ انہوں نے مگر کچھ سوچ کر پاکستانی شاعر فیض احمد فیض کا ایک شعر کورے کاغذ پر لکھا۔ اور یہ خط حکومت پاکستان کو بھجواتے ہوئے قیدی کی رہائی کی اپیل کردی۔ پھر اسی شام گھر پہنچ کر انڈیا میں تعینات پاکستانی ہائی کمشنر کو فون بھی کردیا۔ انڈین جج نے کہا: کچھ دنوں بعد یہ اطلاع پا کر اسکی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ پاکستان کی یوسف رضا گیلانی حکومت نے انڈین قیدی کو رہا کردیا ہے۔ جسٹس کاٹجو کہہ رہے تھے: یہ دنیا کی تاریخ کا انوکھا اور اکلوتا واقعہ ہے کہ انسانیت کے ناطے کسی ملک نے دوسرے ملک کی سپریم کورٹ کی اپیل قبول کی ہو۔ خوبصورت انداز میں اردو میں بات کرنے والا بھارتی جج پکار اٹھا: "پاکستان کو یوسف رضا گیلانی کو سلام ہے کہ اس نے انسانیت پر یقین رکھا۔ یہ اردو زبان کی طاقت ہے۔ یہ اردو شاعری کی طاقت ہے۔" پاکستان کے یوسف کی وجہ سے ہندوستان کے نوجوان گلیوں اور چوراہوں میں فیض احمد فیض کا وہ شعر آج بھی گنگاتے ہیں۔ اور کسی انتہاپسند ہندو ٹولے کے خلاف اپنے مظلوم مسلمان ہم وطنوں کی توانا آواز بن کرسامنےآتےہیں۔
گلوں میں رنگ بھرے، بادِ نو بہار چلے
چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے
قفس اداس ہے یارو، صبا سے کچھ تو کہو
کہیں تو بہرِ خدا آج ذکرِ یار چلے
عمران خان نے' ایک نہیں دو نہیں بلکہ اپنے چاہنے والے کروڑوں ہم وطنوں کے دل چکنا چور کیے۔ 2018 کے الیکشن میں مبینہ طور پر ایک کروڑ 68 لاکھ 60 ہزار 675 ووٹ لینے والا کپتان' مثبت اور انقلابی اقدامات کے سبب لوگوں کو تھانوں اور ہسپتالوں میں' سرکاری دفاتر اور پبلک ٹرانسپورٹ میں ذلت کی زندگی سے نجات دلوانے میں ناکام رہا۔ اُلٹا' آئی ایم ایف سے نالائقی کے سبب ایسا معاہدہ کردیا کہ بندگانِ خدا کی رات بستر پر سکون سے کٹنے کی بجائے مہنگائی کے خوف سے ابتک انگڑائیاں لیتے گزرتی ہے۔ آہستہ آہستہ لوگوں کو شک ہونے لگا کہ کپتان کو سی پیک رول بیک کرنے اور ملکی و عوامی معاشی تباہی کیلئے لایا گیا ہے۔ ایک دن 9 مئی کو چیئرمین پی ٹی آئی کُھل کر سامنے آئے تو شکوک و شبہات، اندیشے و وسوسے یقین میں بدل گئے۔ برادران یوسف کو اُسی دن پہچان جانا چاہیے تھا جب امریکی صدر مسٹر جوبائیڈن سے ملاقات کے بعد پاکستان پہنچ کر ورلڈ کپ جیت کر آنے کی خوشی جیسا اعلان کیاگیاتھا۔ پاکستانیوں کو یہ بعد میں معلوم ہوا کہ عمران خان کی اصل خوشی کی وجہ کشمیر کا نریندرا مودی کیساتھ سودا کرنا تھا۔ یہ سودا بھی گھاٹے کا سودا ثابت ہوا۔ مغلوں میں اکبر بادشاہ چٹا ان پڑھ گزرا ہے۔ عمران خان تو آکسفورڈ سے پڑھے لکھے تھے۔ اکبر بادشاہ نے مگر 50 سال تک کابل سے ڈھاکہ تک ایسے حکمرانی کی کہ اگلے تین سو سال تک ہندوستان دنیا میں سونے کی چڑیا بنارہا۔ عقل و دانش اگر آکسفورڈ سے ملتی تو ہمارے چیئرمین پی ٹی آئی کشمیر کا سودا کرتےوقت انڈیا کیساتھ کم از کم گولیوں کی تھرتھراہٹ کو خاموش کرنے کا ہی معاہدہ کرجاتے۔ ایل او سی کے آر پار بسنے والے کشمیری اُن کیلئے آج دعا کررہےہوتے۔عمران خان کشمیر کےسودے کے نتیجے میں پاک انڈیا تجارت کی بحالی میں بھی ناکام رہے۔ کھانا پکانے کیلئے 12سو روپے میں ایک کلو ادرک خریدنے والے پاکستانی انڈیا سے 240 روپے کلو کے حساب سے ادرک لیکر بچوں کا پیٹ پالنےکےقابل ہوتے۔ 85 روپے کی بجائے 25 روپے میں پیاز ملتے تو کیا برا تھا؟  453 روپے کی بجائے 153 روپے میں ایک کلو لہسن گھر بیٹھے مل رہا ہوتا۔ گھر بنانے کیلئے 280 روپے کلو کی بجائے انڈیا سے بہترین قسم کا ایک کلو لوہا محض 70 روپے میں آتا۔ آج لوگ عمران خان کی وجہ سے سیمنٹ کی بوری 1200 میں خرید رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:اسمگلنگ ، ذخیرہ اندوزی اور معیشت کو لگی دیمک کیخلاف جنگ کا آغاز

عمران خان بصیرت سے کام لیتے تو انڈیا سے 270 روپے میں یہ بوری اٹھالی جاتی۔ ہندوستان سے صرف 6 لاکھ نوے ہزار روپے میں بہترین قسم کی ایسی کار آسکتی' جو پاکستان میں معمولی سی بھی معمولی اب 40 لاکھ سے کم میں نہیں ملتی۔ مہنگائی مافیا نے پاکستانیوں پر ان کی زندگیاں جس قدر تنگ کی ہوئی ہیں' پاکستانی عوام کے ان حقیقی بدخواہوں کی کمر توڑنے کا فوری طور پر صرف پاک انڈیا تجارت ہی ایک علاج ہے۔اذیت ناک حالت سے دوچار پاکستان نام کے یوسف کو تباہی و ذلت کے کنویں سے نکالنا ہے یا برادرانِ یوسف کی مزید پرورش کرنی ہے؟ فیصلہ آپکا۔
بے دم ہوئے بیمار دوا کیوں‌نہیں ‌دیتے
تم اچھے مسیحا ہو شفا کیوں‌نہیں ‌دیتے
مِٹ‌جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے
منصف ہو تو اب حشر اُٹھا کیوں‌نہیں‌دیتے

نوٹ:یہ بلاگ ذاتی خیالات پر مبنی ہے،بلاگر کے ذاتی خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔ایڈیٹر

مزیدخبریں