چترال حملہ : امریکہ و افغان عبوری حکومت کی انصاف پروری کا امتحان

احمد منصور | ٹی ٹی پی دہشت گردی میں بھارتی میڈیا کی سہولت کاری کا تجزیہ ناگزیر ، بھارتی پراکسی وار کا سدباب  اور دوحہ معاہدے پر عملدرآمد کیلئے افغان عبوری حکومت پر دباؤ بڑھانا امریکہ اور نیٹو ممالک کی ذمےداری ہے -

Sep 12, 2023 | 15:46:PM

افغانستان سے غیر ملکی افواج کے اچانک اور انتہائی غیر ذمے دارانہ انداز میں  بے ہنگم انخلا کے بعد پاکستان میں دہشتگردی کی خوفناک لہر افغان عبوری حکومت ، امریکہ اور پوری عالمی برداری کی انصاف پروری کا امتحان ہے کہ عالمی امن کیلئے صف اول میں رہ کر خدمات انجام دینے ، افغانستان کی 50 سالہ بدامنی کے دوران ایک مخلص ہمسائیہ ثابت ہونے اور 40 لاکھ مہاجرین کی میزبانی کیلئے انصار مدینہ کے نقش قدم پر چلنے کا یہ صلہ ہے کہ اپنے اپنے مسائل حل ہونے کے بعد عالمی برادری اور۔ افغانستان دونوں پاکستان کو تنہا چھوڑ دیں اور پاک سرزمین اور اس کے 25 کروڑ عوام مسلسل سرحد پار دہشت گردی کا نشانہ بنتے رہیں ؟ 

یہ وہ سلگتے سوالات ہیں کہ جو پاکستان کے 25 کروڑ عوام کے ذہنوں میں کلبلا رہے ہیں اور آنے والے عشروں کی پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی اسٹریٹجک پلاننگ پر گہرے اثرات مرتب کریں گے ۔ ستم بالائے ستم اس دہشت گردی کی براہ راست اور بالواسطہ سرپرستی ہے جس کی  علانیہ جھلک بھارتی میڈیا کے گھناؤنے پروپیگنڈے میں واضح  طور پر نظر آ رہی ہے ۔

امریکہ اور نیٹو ممالک جس تیزی سے بھارت پر اپنی تجارتی ، معاشی ، دفاعی اور اسٹریٹجک نوازشات بڑھا رہے ہیں ، ان کے تناظر میں دیکھا جائے تو بھارتی حکومت و ریاست پر انہیں غیر معمولی اثر و رسوخ حاصل ہو چکا ہے لیکن افسوس کہ امریکہ اور نیٹو ممالک نہ تو بھارت کو یہ گھناؤنا کردار ادا کرنے سے روک رہے ہیں اور نہ ہی دوحہ معاہدے کے تحت طالبان کی  افغان عبوری حکومت سے ان وعدوں کی تکمیل کروا رہے ہیں کہ جو ہنگامی انتقال اقتدار  کے دوران کیئے گئے تھے ۔ 

ضرورپڑھیں:ہم چاند پر کیوں جائیں؟

ایسا ہی افسوسناک رویہ خود طالبان کی افغان عبوری حکومت کا ہے ، کہنے کو تو نئے عبوری حکمرانوں کی طرف سے اپنی حکومت کو  امارات اسلامی افغانستان قرار دیا جاتا ہے،  لیکن حق ہمسائیگی ، انصار کے حقوق ، فتنہ خوارج ، دہشت گردی اور سرحد پار حملوں سمیت کسی بھی حوالے سے مسلمہ اسلامی اصولوں اور بین الاقوامی ذمےداریوں کی پاسداری نہیں کی جا رہی ۔

ٹی ٹی پی نے پاکستان کے خلاف چترال بارڈر پر حالیہ حملوں کے لیے " یومِ دفاع" کا انتخاب کیا جو ان کے غیر ملکی ایجنڈے کا بھرپور اظہار کرتا ہے ۔ یعنی اپنے  غیر ملکی آقاؤں اور پاکستان کے دشمنوں کے لیے کام کرنا ، جن کو پاکستان کے یوم دفاع کی تکلیف ہے ۔  

چترال بارڈر پر پاک فوج نے بہادری سے لڑتے ہوئے ٹی ٹی پی کے خوارجی دہشت گردوں کے مذموم عزائم کو ناکام بنا دیا ہے۔بزدل خوارجی دہشت گرد بھاگ گئے۔ اپنی لاشیں بین الاقوامی سرحد کے پار چھوڑ کر اب صرف جھوٹے دعووں اور انٹرنیٹ پر جھوٹے پروپیگنڈے کے ساتھ اپنے زخم چاٹ رہے ہیں  ہیں۔

پاک فوج کی کاوشوں اور مقامی لوگوں کے بے مثال تعاون  کی وجہ سے الحمدللہ چترال میں حالات قابو میں ہیں۔ اور یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ چترال میں حالات معمول پر ہیں اور لوگوں کی طرف سے معمول کی زندگی کی سرگرمیاں دیکھی جا رہی ہیں۔

بہادر چترالی عوام قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ کھڑے ہیں جو  افواج پاکستان اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ ان کی محبت اور حمایت کا عکاس ہے ، پاک فوج اور عوام کا یہ مقدس رشتہ اس بات کی ضمانت ہے کہ ٹی ٹی پی کی دہشت گرد سرگرمیاں کبھی بھی ہمارے ملک کے امن کو خراب نہیں کر سکیں گی جو غیر معمولی قربانیاں دے کر حاصل کیا گیا ہے ، انشاء اللہ

 خوارجی دہشت گردوں کا من گھڑت پروپیگنڈہ اپنے آقاؤں سے حاصل کیئے گئے ڈالر ہضم کرنے کیلئے ایک پبلسٹی سٹنٹ کے سوا کچھ نہیں ۔ ریاست پاکستان کی ملک میں دہشت گردی کے لیے "زیرو ٹالرنس" ہے۔  پاکستان کی سیکیورٹی فورسز دہشت گردی کی لعنت کو ختم کرنے کے لیے پرعزم ہیں اور ہمارے فوجی افسروں و جوانوں کی قربانیاں ہمارے اس عزم کو مزید پختہ اور  مضبوط کرتی ہیں۔

چترال میں اپنی پراکسیز کے حالیہ حملوں کے حوالے سے بھارتی پروپیگنڈہ بھی توجہ طلب ہے ، اس پروپیگنڈے سے ایک بار پھر یہ ثابت ہو گیا ہے کہ بھارت پاکستان کا ہمسایہ نہیں ازلی دشمن ہے اور  پاکستان میں انارکی پھیلانے کے ہر واقعے میں اسے اپنا ذاتی اور ریاستی مفاد نظر آتا ہے ، بھارت کی ایسی تمام گھناؤنی حرکتوں اور منفی ایجنڈے کو  پاکستان نے ہر بار کامیابی سے ناکام بنایا ہے۔

افغان عبوری حکومت کو بھی  پاکستان کے خلاف ٹی ٹی پی کے دہشت گرد حملوں کے لیے افغان سرزمین کے استعمال کے حوالے سے اپنی پالیسی پر سنجیدگی سے دوبارہ غور کرنا ہوگا۔ یوم دفاع پر دہشت گرد حملوں کے ذریعے کس کا ایجنڈا پورا کیا گیا ؟ یہ سوچنا بھی افغان عبوری حکومت اور ان کے امیر کی اہم ترین ذمے داری ہے ۔ اس سلسلے میں  جعلی ویڈیوز کے ذریعے جاری پروپیگنڈے کے ساتھ بھارتی میڈیا پر جو  کوریج کی گئی وہ اس سارے معاملے کے پس پردہ کارفرما اصل کہانی بیان کرتی ہے اور افغان عبوری حکومت کو اس تمام کوریج کا باریک بینی سے تجزیہ کر کے چور کے ساتھ چوروں کی نانی تک بھی پہنچنا ہو گا ، اس معاملے کو  "گراس روٹ لیول"  تک سمجھنے سے ہی کوئی پائیدار حل نکلے گا ۔ 

افغان عبوری حکومت کو فیصلہ کرنا ہے کہ وہ کس طرف کی حمایت کرتے ہیں؟  کیا وہ پاکستان کے دشمنوں کا ساتھ دیں گے یا پاکستان کے ساتھ کھڑا ہونا پسند کریں گے- ایک طرف ایک ایسا ملک ہے جو ہمیشہ سے ان کے دشمنوں کی مدد کرتا رہا ہے اور دوسری طرف ایک ایسا ملک ہے جس نے ہمیشہ ان کی مدد اور میزبانی کی ہے ۔

یہ بھی پڑھیں:صدر مملکت کی مدت کی آئینی مدت پوری، کتنے اختیارات رکھتے ہیں؟

یہ اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی کہ ٹی ٹی پی کے دہشت گرد افغانستان کے اندر محفوظ پناہ گاہوں اور آزادانہ نقل و حرکت کی علانیہ سہولتوں سے لطف اندوز ہو رہے ہیں ، اس کی تصدیق اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی تجزیاتی معاونت اور پابندیوں کی نگرانی کرنے والی ٹیم نے اپنی تازہ ترین رپورٹ میں بھی  کی ہے۔

 پاکستان افغان عبوری حکام سے توقع کرتا ہے کہ وہ پاکستان کے خدشات اور شکایات کو ذہن میں رکھیں ، پاکستان کی علاقائی سالمیت کا احترام کریں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ افغان سرزمین پاکستان کے خلاف دہشت گرد حملوں کے لیے لانچنگ پیڈ کے طور پر استعمال نہ ہو۔

پاکستان کی ہمیشہ یہ دلی خواہش رہی  ہے کہ افغانستان کے ساتھ سرحد دونوں ممالک کے درمیان امن اور دوستی کی سرحد بنے اور اسی لیئے  پاکستان نے بہت سے ناقابل برداشت نقصانات اور صدمات کے باوجود تحمل کا مظاہرہ کرنے اور افغان عبوری حکومت کے ساتھ ڈائیلاگ کو ہی ترجیح دینے کو اپنی مستقل پالیسی بنا رکھا ہے ۔ 

دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی جنگ مسلسل اپنے اصل ہدف پر مرکوز  ہے اور کسی امتیاز کے بغیر انتہائی پختہ عزم کے ساتھ جاری  ہے، چترال جیسے  حملوں سے پاکستانی قوم اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے عزم اور یقین کو کمزور نہیں کیا جا سکتا ، پاکستانی قوم اور قانون نافذ کرنے والے ادارے دہشت گردی کے خطرے کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

 امریکی اور نیٹو افواج کا افغانستان سے کسی  منصوبہ بندی کے بغیر بے ہنگم انخلا بھی اس تشویشناک صورتحال کی ایک بڑی وجہ ہے ، دوحہ معاہدے پر عمل درآمد بین الاقوامی برادری خاص طور پر امریکہ کی ذمے داری ہے۔ اس لیئے امریکہ اور عالمی برادری کی طرف سے پاکستان کے ساتھ مل کر مشترکہ کوششیں کرنا اور انسداد دہشت گردی کے حوالے سے کوآرڈینیشن مزید بہتر بنانا ناگزیر ہوچکا ہے ۔

عالمی برادری کو دہشت گردی کے عالمی خطرے کا مقابلہ کرنے کے لیے پاکستان کے ساتھ کھڑا ہونے کی ضرورت ہے کیونکہ پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ دنیا بھر میں جہاں بھی دہشت گردی کے خطرات ہوں پاک فوج نے صف اول میں رہ کر عالمی امن کوششوں میں اپنے حصے کا کردار ادا کیا ہے۔

نوٹ:یہ بلاگ ذاتی خیالات پر مبنی ہے،بلاگر کے ذاتی خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔ایڈیٹر

مزیدخبریں