(24نیوز) قومی اسمبلی اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے شیر افضل مروت نے کہا ہے کہ تین چار دنوں میں کچھ اچھی باتیں بھی ذہن میں سما گئی ہیں، اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کا شکریہ ادا کرتا ہوں، انہوں نے نفرت کے ماحول میں کھانے کا اہتمام کیا اور ہمیں سنا، پارلیمنٹ کے ساتھ جو ہوا شاید یہ نہ ہوتا۔
تفصیلات کے مطابق شیر افضل مروت نے کہا کہ رانا ثناء اللہ کے ساتھ جو ہوا ہمیشہ اس کی مذمت کی، خواجہ آصف اور عطا تارڑ سے پی ٹی آئی میں نفرت کی جاتی ہے، قسم اٹھاتا ہوں اگر ان کو کچھ کہا جائے گا تو وہ ہاتھ روکوں گا، اس دن میں نے بات کی لیکن موقع نہ ملا، میں نے ساتھیوں کو کہا کہ ہمارے پاس گارڈز ہیں میدان کار زار بنا لیتے ہیں، رہنما پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ عامر ڈوگر نے کہا کہ یہ ہماری گرفتاری کیلئے نہیں آئے ،بہر حال مجھے گرفتار کیا اور لے گئے، میرے پاس کلاشنکوف تھے اور پستول تھی ابھی تک کچھ بھی واپس نہیں کیا گیا، یہ جج جب سے آیا ہے یہی کام کررہا ہے، بانی چیئرمین پی ٹی آئی، شاہ محمود قریشی کے ریمانڈ اس جج نے نہیں دیے، رات کو اہلکار آئے اور مجھے ساڑھے نو بجے گاڑی میں بٹھایا اور میری آنکھوں پر پٹی باندھ کر مجھے لےگئے ، مزید کہا کہ وہاں نقاب پوش بیٹھے ہوئے تھے اور اس نقاب پوش کو میں نے پہنچان لیا، اس نقاب پوش نے پستول نکالا اور کہا کہ اگر کوئی بھاگ جاتا ہے تو اسے مار دیا جاتا ہے۔
اجلاس کے دوران اسد قیصر نے پوری پارلیمنٹ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ تمام پارٹیز نے 9 اور 10 تاریخ کی درمیانی رات کے ہونے والے واقعے پر یکجہتی کا اظہار کیا، پارلیمنٹ اس ملک کا سب سے مقدس اور قابل احترام ادارہ ہے، یہ پارلیمنٹ جیسی بھی ہمیں اس کا احترام ہے، آئینی ترمیم کیلئے ہمارے اراکین کو خریدنے کی کوشش کی جارہی ہے، انہوں نے بتایا کہ سعد اللہ بلوچ کو بازیاب کرانے کیلئے ان کی فیملی کو اغوا کیا گیا، زور زبردستی سے لانے والے اس قانون کی کیا حیثیت ہوگی، کیا چیف جسٹس اس قسم کے قانون کے بعد اپنے ایکسٹنشن کیلئے تیار ہوں گے؟ آج اگر وہ فائدہ لینے سے انکار کرے تو کہیں گے کہ بڑا قدم اٹھایا۔
قبل ازیں آج ڈپٹی اسپیکر کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں سوالات کے وقفے کے دوران وفاقی وزیر قانون و پارلیمانی امور اعظم نذیر تارڑ نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ جب اسمبلی نہ ہو تو آرڈیننس پیش کیا جاسکتا ہے، جو آرڈیننس نگران حکومت کے دور میں آئے وہ ایوان میں پیش کیے گئے ، اب ایوان کی مرضی ہے کہ ان کو اپنائیں یا مسترد کردیں،حکومت کا ان آرڈیننس سے کوئی تعلق نہیں ہے، یہ ایوان کا اختیار ہے کہ آرڈیننسز میں ترمیم کرے منظور کرے یا مسترد کرے۔