بھارت میں انسانی حقوق کی پامالیاں، امریکا کا سخت ردعمل
Stay tuned with 24 News HD Android App
(مانیٹرنگ ڈیسک)امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے کہا ہے کہ امریکا بھارت میں ہونے والی بعض انسانی حقوق کی پامالیوں پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ انہوں نے بھارتی حکام کی طرف سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں اضافے پر تشویش کا اظہار کیا۔ واشنگٹن کی جانب سے ایشیائی ملک میں انسانی حقوق کے ریکارڈ پر غیر معمولی براہ راست تنقید سامنے آئی ہے۔
العریبہ ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے بھارتی وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکر اور وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کے ساتھ ایک مشترکہ پریس بریفنگ میں بلنکن نے کہا کہ ہم ان مشترکہ (انسانی حقوق) کی اقدار پر اپنے بھارتی شراکت داروں کے ساتھ باقاعدگی سے بات چیت کر رہے ہیں اور اس کے لئے ہم بھارت میں ہونے والی کچھ تشویشناک پیش رفتوں کی نگرانی کر رہے ہیں۔انسانی حقوق سے متعلق حال ہی میں پیش آنے والے بعض واقعات میں حکام، پولیس اور جیلوں کے حکام کے ملوث ہونے کی اطلاعات ہیں۔بلنکن نے اسکی وضاحت نہیں کی کہ سنگھ اور جے شنکر جنہوں نے پریس بریفنگ میں بلنکن کے بعد بات کی انسانی حقوق کے معاملے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔
بلنکن کا تبصرہ امریکی رکن کانگریس الہان عمر کےبیان کے چند دن بعد سامنے آیا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ وہ سمجھتی ہیں کہ انسانی حقوق کے حوالے سے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت پر تنقید کرنے میں امریکی حکومت کی ہچکچاہٹ محسوس کرتی ہے۔الہان عمر جو صدر جو بائیڈن کی ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھتی ہیں نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ مودی کو بھارت کی مسلم آبادی کے خلاف کیا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ انہیں امن کے شراکت دار کے طور پر دیکھنا چھوڑ دیں؟۔
مودی کے ناقدین کا کہنا ہے کہ ان کی حکمران جماعت جو ہندو قوم پرست پالیسیوں کی حمایت کرتی ہے 2014 میں اقتدار سنبھالنے کے بعد سے مذہبی پولرائزیشن میں اضافہ کر رہی ہے۔مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے دائیں بازو کے ہندو گروپوں نے اقلیتوں پر حملے شروع کئے ہیں اور یہ دعویٰ کیا ہے کہ وہ مذہب کی تبدیلی کو روکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔2019 میں حکومت نے ایک شہریت کے قانون کی منظوری دی جس کے مخالفین نے کہا کہ پڑوسی ممالک سے مسلمان تارکین وطن کو خارج کرکے ہندوستان کے سیکولر آئین کو مجروح کیا گیا۔یہ قانون 2015 سے پہلے افغانستان، بنگلہ دیش اور پاکستان سے فرار ہونے والے بدھ مت، عیسائی، ہندو، جین، پارسی اور سکھوں کو ہندوستانی شہریت دے گا۔اسی سال 2019 میں ان کے دوبارہ انتخاب کے فوراً بعد مودی حکومت نے مسلم اکثریتی خطے کشمیر کو ملک کے باقی حصوں کے ساتھ مکمل طور پر ضم کرنے کے لیے کشمیر کی خصوصی حیثیت کو منسوخ کر دیا۔اس اقدام کے خلاف مظاہرے شروع ہوگئے۔ مظاہروں پر قابو پانے کے لیے انتظامیہ نے کشمیر میں بہت سے سیاسی رہ نماؤں کے خلاف کریک ڈاؤن کیا۔ متنازع جموں و کشمیر میں فوج اور پولیس کی بھاری نفری تعینات کی۔مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی نے حال ہی میں ریاست کرناٹک میں کلاس رومز میں اسکارف پر پابندی لگا دی ہے۔ ہندوشدت پسندوں نے بعد میں دیگر ہندوستانی ریاستوں میں بھی ایسی پابندیوں کا مطالبہ کیا۔
یہ بھی پڑھیں: سرکاری ملازمین کی شہباز شریف کے فیصلے کیخلاف بغاوت، بڑا اعلان کردیا