(ویب ڈیسک) امریکی ریاست فلوریڈا میں ’ننجا کِلر‘ کے نام سے مشہور ایک شخص کو 30 سال بعد سزائے موت دے دی گئی ہے جسے جیوری نے 1989 میں ایک جوڑے کو قتل کرنے کے جُرم میں سزا سنائی تھی۔
بین الاقوامی خبررساں ادارے کے مطابق فلوریڈا کے محکمہ اصلاح نے ایک بیان میں بتایا کہ ’56 سالہ لوئس گیسکن کو شام سوا چھ بجے زہر کے مہلک انجیکشن سے موت کے گھاٹ اُتارا گیا۔‘
لوئس گیسکن کی سزا ریاست کے ریپبلکن گورنر ڈی سینٹیس کی جانب سے رواں سال اب تک منظور کی گئی تین موت کی سزاؤں میں سے ایک ہے۔
گیسکن کو میڈیا نے ’ننجا کِلر‘ کا نام دیا تھا کیونکہ انہوں نے 20 دسمبر 1989 کو واردات کے دوران مکمل طور پر سیاہ لباس زیب تن کر رکھا تھا۔ عدالتی دستاویزات کے مطابق رائفل سے لیس لوئس گیسکن نے نیو جرسی کے ایک جوڑے کے گھر میں واردات کےدوران کھڑکی سے فائرنگ کی۔ جس کے نتیجے میں ایک شخص ہلاک جبکہ اُس کی اہلیہ زخمی ہو گئی تھیں تاہم اُنہوں نے بھاگنے کی کوشش کے دوران خاتون کو بھی گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔
گیسکن نے گھر سے گھڑی، لیمپ اور دیگر اشیا دراصل اپنی گرل فرینڈ کو کرسمس کے تحفے کے طور پر دینے کیلئے چُرائی تھیں۔ گیسکن نے اُسی رات ایک اور گھر میں بھی ڈکیتی کے دوران ایک شخص کو زخمی کر دیا تھا جو اپنی اہلیہ کے ساتھ گاڑی میں جان بچا کر بھاگ گیا تھا۔
لوئس گیسکن کو دو ہفتے بعد گرفتار کر لیا گیا تھا اور اُنہوں نے اپنے جرائم کا اعتراف بھی کر لیا۔ جیوری نے سزائے موت کی سفارش کے لیے 4-8 ووٹ دیے۔ اُس وقت سزائے موت کیلئے صرف اکثریت کے ووٹ کی ضرورت ہوتی تھی۔
ریاست کو پھانسی کی سفارش کیلئے اب متفقہ ووٹ درکار ہوتا ہے۔
گیسکن کو سزا سنائے جانے کے بعد اُن کے وکلاء نے متعدد اپیلیں دائر کیں اور یہ دلیل دی کہ وہ نفسیاتی مسائل کا شکار ہیں۔
1991 میں فلوریڈا کی ایک اپیل کورٹ نے تسلیم کیا کہ وہ شیزوفرینیا میں مبتلا ہیں تاہم یہ فیصلہ کیا گیا کہ وہ مکمل طور پر جانتے تھے کہ وہ کیا کر رہے ہیں اس لیے اُن پر قانونی طور پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ ریاست کے ریپبلکن گورنر ڈی سینٹیس نے گذشتہ ماہ گیسکن کی سزائے موت کے احکامات پر دستخط کیے تھے اور امریکی سپریم کورٹ نے ان کی حتمی اپیل مسترد کر دی تھی۔
سزائے موت 27 امریکی ریاستوں میں قانونی ہے اور سال کے آغاز سے لے کر اب تک 10 افراد کو موت کے گھاٹ اُتارا گیا ہے جن میں گیسکن بھی شامل ہیں۔