حضرت آدم ؑ کی وفات کے وقت بیٹے شیثؑ کو وصیت
Stay tuned with 24 News HD Android App
کائنات میں پیدا ہونے والے پہلے انسان حضرت آدم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے تمام علم عطا کرنے کے بعد اس کرہ ارض پر اتارا تھا ، یہ علم انہوں نے اپنی اولاد کو بھی سکھائے ، اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں امت محمدیﷺ کو ان کے باپ آدم ؑ کی زندگی کے تمام واقعات کے بارے میں تفصیل سے آگاہ کیا ہے ، تاکہ مسلمانوں کو ہدایت میسر آ سکے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے واضح فرمایا ہے کہ شیطان انسان کا کھلم کھلا دشمن ہے وہی شیطان جس نے حضر ت آدم علیہ السلام کو اللہ کے حکم کے باوجود سجدے سے انکار کر دیا تھا ۔
اللہ تعالیٰ کی جانب سے قیامت تک کی مہلت ملنے کے بعد شیطا ن ہر وقت انسان کے نفس کے ذریعے اس پر حملہ کرتا رہتا ہے ،جبکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کیلئے ہدایت کا اہتمام بھی کیا ہے اور اللہ نے بنی نوع انسان کو سمجھانےکیلئے قرآن مجید میں تمام باتیں کھول کھول کر بیان فرمائی ہیں ۔
ایسا ہی ایک واقعہ جو اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کے ذریعے ہم تک پہنچایا وہ حضرت آدم علیہ السلام کی اپنے بیٹے شیث ؑکو وصیت ہے ، شیث کے معنی اللہ تعالیٰ کا عطیہ ہے اور حضرت آدم علیہ السلام نے اپنے بیٹے کا یہ نام اس لیے رکھا کیونکہ حضرت ہابیل کے قتل کے بعد اللہ تعالیٰ نے شیث علیہ السلام کو پیدا کیا تھا۔
حضر ت ابو ذر رسول ﷺ سے نقل فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان سے کل 104 صحیفے نازل فرمائے ہیں اور ان میں سے 50صحیفے اللہ تعالیٰ نے حضرت شیث علیہ السلام پر نازل فرمائے ہیں ، محمد بن اسحاق فرماتے ہیں کہ جب حضرت آدم علیہ السلام کی وفات کا وقت قریب آیا تو آپ نے اپنے بیٹے شیث علیہ السلام کو وصیت کی ، دن اور رات کے اوقات کی تعلیم دی اور ان اوقات کی عبادت سکھائیں اور ایک بہت بڑے طوفان کے آنے کی پیشگی خبر دی تھی۔
محمد بن اسحاق کہتے ہیں کہ کہا جاتا ہے کہ اولاد آدم کے تمام نسب حضرت شیث علیہ السلام تک پہنچتے ہیں کیونکہ آپ کے سوا تمام اولاد آدم ختم ہوچکی تھی ،واللہ اعلم ۔
حضرت آدم علیہ السلام کی جمعہ کے دن وفات ہوئی اور حنوط نامی خوشبو ان کے پاس فرشتے لائے اور اللہ کی طرف سے جنت سے کفن مہیا کیا گیا، اور آپ ؑکے بیٹے اور وصی حضرت شیث علیہ السلام سے تعزیت کی ، ابن اسحاق کہتے ہیں کہ آدم علیہ السلام کی وفات کے بعد سورج اورچاند سات دن تک گہنائے رہے اور ان کی روشنی مدہم ہوگئی تھی ۔
حضرت ابن کعب فرماتے ہیں کہ جب آدم علیہ السلام کی وفات کا وقت قریب آیا تو اپنے بیٹوںکو فرمایا کہ میرے بیٹو میں جنت کا پھل کھانا چاہتا ہوں تو انکے بیٹے پھل لینے کیلئے چل پڑے تو راستہ میں فرشتوں سے ملاقات ہو گئی اور انکے پاس کفن اور حنوط نامی خوشبو تھی اور ساتھ میں کلہاڑیاں بیلچے اور ٹوکریاں تھیں فرشوں نے آدم علیہ السلا م کے بیٹوں سے پوچھا کہ تم کدھر جا رہے اور کیا تلاش کر رہے ہو، جس پر حضرت آدم علیہ السلام کے بیٹوں نے جواب دیا کہ ہمارے با پ آدم بیمار ہیں اور جت کا پھل کھانا چاہتے ہیں ، فرشتوں نے کہا کہ واپس چلو تمہارے باپ آدم علیہ السلام کا وقت پورا وہ چکا ہے ۔
پس فرشتوں نے ان کی روح قبض کی ان کو کفن پہنچایا اور خوشبو لگائی اور ان کیلئے قبر کھودی اور ان کی لحد بنائی اور ان پر نمازہ جنازہ پڑھائی پھر ان کو قبر میں داخل کیا اور ان پر مٹی ڈالی اور پھر کہا اے آدم کے بیٹو! میت کو دفنانے کا تمہارے لیے یہی طریقہ ہے حضرت ابی بن کعب تک اس حدیث کی سند صحیح ہے ۔
اقتباس: قصص الانبیا از امام حافظ عماد الدین ابواالفداابن کثیرؒ
نوٹ(ایک مسلمان جان بوجھ کرقرآن مجید،احادیث رسولﷺ اور دینی وعلمی کتابوں میں غلطی کرنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا بھول ہونے والی غلطیوں کی تصحیح واملاح کیلئے ہم سے رابطہ کیا جا سکتا ہے )