اس عید پر عید کے چاند سے بھی زیادہ جس بات کا چرچہ رہا وہ بہاولنگر میں ہونے والے ایک تنازعہ کا ہے کہ جس میں بظاہر یوں محسوس ہوتا ہے کہ پولیس اور فوج کے چند جوانوں کا تنازعہ تھا جو ایک سے دوسرے کے منہ میں جاتے جاتے ادارہ جاتی جنگ میں تبدیل ہوگیا، یوں لگا جیسے پاکستان کے دو اہم ادارے جو ملکی اور سرحدی امن و امان کے ضامن ہیں یاایک دوسرے کے سامنے آکھڑے ہوئے ،اس واقعہ کے حوالے سے سوشل میڈیا پر وہ طوفان بدتمیزی مچا کہ رہے اللہ کا نام ۔کسی نے فوج کی ہمدردی میں پولیس کے لتے لیے تو کسی نے پولیس کی ہمدردی کے پیچھے پاک آرمی کے تشخص کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی، یہ تنازعہ تھا کیا اور اسے دہشت گردوں نے کیسے ادارہ جاتی جنگ میں تبدیل کرکے امن و امان کی کوششوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی یہ ہے وہ موضوع جس پر آج لکھنے کا فیصلہ کیا سب سے پہلے یہ تنازعہ ہے کیا اس پر بات کر لیتے ہیں ۔
ہمارے ایک دوست صحافی رانا ذوالفقار نے کچھ یوں بیان کیا ہے ،جو حقیقت کے زیادہ نزدیک معلوم ہوتا ہے ،اس تنازع کا آغاز آٹھ اپریل کو تھانہ مدرسہ کے ایس ایچ او رضوان عباس کی جانب سے ایک فوجی اہلکار محمد خلیل کے گھر پر چھاپے اور اہلِ خانہ کو زدوکوب کرنے سے شروع ہوا۔ چھاپہ محمد خلیل کے مخالفین کی ایما پر ڈلوایا گیا جس پر اہلِ علاقہ کی جانب سے بھی مزاحمت کی گئی۔ پولیس اہلکاروں پر یہ الزام بھی ہے کہ اُنہوں نے چھاپے کے دوران فوجی اہلکار کے گھر سے قیمتی اشیا اور نقدی بھی اُٹھا لی، پولیس نے بغیر وارنٹ فوجی افسر کے گھر پر چھاپہ مارا جہاں سے تنازع شروع ہوا , عدالت کی طرف سے جاری ہونے والے وارنٹ گرفتاری کے بغیر گھر میں داخل ہونا پولیس کا پہلا سنگین جرم ہے،1997 کے ایکٹ کی دفعہ 740 کے مطابق پولیس کسی گھر میں بغیر وارنٹ داخل نہیں ہوسکتی اور اگر پولیس بغیر وارنٹ داخل ہوئی اور اہل مکان نے اہلکاروں پر تشدد کیا تو اہل مکان پر کوئی جرم نہیں بنتا،پولیس آرمڈ فورسز کے اہلکاروں کو گرفتار کرنے کا اختیار نہیں رکھتی۔ البتہ صرف قتل جیسے سنگین جرم میں پولیس گرفتار کرسکتی ہے مگر اس کے لیے بھی پہلے بریگیڈ کمانڈ سے تحریری اجازت نامہ لازم ہے ۔
ضرورپڑھیں:بشریٰ بی بی کو دنیا کا خطرناک ترین زہر دیا گیا، تصدیق ہوگئی
پولیس کے پاس آرمی کے اہلکار کو براہِ راست گرفتار کرنے کا کوئی اختیار نہیں۔ اگر فوجی اہلکار کے خلاف قتل کا مقدمہ بھی درج ہو تو اس کی گرفتاری کا باقاعدہ ایک طریقہ کار ہے، گرفتاری کے لیے مطلوب اہلکار کی یونٹ کے انچارج یا بریگیڈیئر کو خط لکھا جاتا ہے جس میں ایف آئی آر کی کاپی منسلک کی جاتی ہے اور پولیس تفتیش کے دیگر حالات و واقعات بتائے جاتے ہیں۔ یہ نہیں ہوتا کہ آپ ایک آرمی اہلکار کے خلاف مقدمہ درج کر کے اس کے گھر میں گھس جائیں،فوجی افسران کے مطابق پولیس کو جب تعزیراتِ پاکستان کا ایکٹ پڑھایا جاتا ہے تو اس میں فوجی اہلکاروں کے خلاف کارروائی سے متعلق بات شامل ہوتی ہے، بہاولنگر کے ایس ایچ او کے علم میں تھا کہ وہ جہاں چھاپہ مار رہا ہے اور جسے گرفتار کر رہا ہے، وہ آرمی کا حاضر سروس اہلکار ہے تو پھر اس کے ساتھ ایسا ہی ہونا تھا جیسا اہلکار کی گرفتاری کے بعد ہوا،اعلٰی پولیس حکام کے نوٹس میں آنے کے بعد پولیس نے ریڈ کرنے والے ایس ایچ او رضوان عباس، اے ایس آئی محمد نعیم اور دیگر کے خلاف ایف آئی آر درج کر کے اُنہیں حراست میں لے لیا اور محکمہ جاتی کارروائی بھی شروع کر دی گئی ہےایف آئی آر نئے تعینات ہونے والے ایس ایچ او سیف اللہ حنیف کی مدعیت میں درج کی گئی ہے۔ ایف آئی آر فرائض میں غفلت برتنے اور غیر قانونی حراست میں رکھنے کی دفعات کے تحت درج کی۔
یہ بھی پڑھیں:ججز کو ملنے والےخط،سازش بے نقاب
اس واقعہ کے بعد اتنی گرد اچھالی گئی کہ رہے خدا کا نام ۔حقیقت حال یہ ہے کہ یہ سارا واقعہ ہی چند پولیس اہلکاروں مین موجود کالی بھیڑوں کا ہے جو پنجاب بھر میں اس محکمے کو بدنام زمانہ بنانے میں کو دقیقہ فروگزاشت نہیں رکھتے ، چند ٹکوں کی حاطر کسی کے بھی گھر میں گُھس جانا بندوں کو اٹھانا خواتین کی تذلیل کرنا اور رہائی کے نام سے بھتہ وصول کرنا ، سمگلنگ کرانا ، جوئے، شراب کے اڈے چلانا منشیات کا دھندہ کرانا اس فورس کے چند افراد کا کام ہے لیکن اس میں پوری فورس کو ملوث قرار دینا کہیں بھی درست نہیں ہے پولیس کے ایماندار افسران و اہلکاروں نے عوام کے تحفظ کے لیے وہ وہ گراں قدر خدمات سرانجام دی ہیں اور جام شہادت نوش کیے ہیں کہ جس سے ہمارا سر فحر سے بلند ہوجاتا ہے شائد اسی لیے آرمی چیف حافظ عاصم منیر نے اپنے ایک بیان میں اس بات کا اظہار بھی کیا تھا کہ ’پاک فوج کو اپنی پولیس پہ فخر ہے۔ اور ہم ہمہ وقت اپنی پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ آپ لوگ ریاست کی جنگ لڑ رہے ہو۔ یہ اللّٰہ کی جنگ ہے اور اس جنگ میں اللّٰہ تمہارے ساتھ ہے”
اب اس واقعہ پر جے آئی ٹی بن گئی ہے جو واقعات کی صحیح معنوں میں تحقیق کرے گی اور ذمہ داران کو کو قرار واقعی سزا دے گی، یہ ایک واقعہ ہمارے پولیس افسران کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے کہ وہ اپنے اندر موجود کالی بھیڑوں کی نشاندہی کرکے فورس کو اس سے پاک کریں بظاہر نظر آنے والا یہ واقعہ ہمارے دونوں معزز اداروں کے لیے ایک امتحان ہے ۔
نوٹ:بلاگر کے ذاتی خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ایڈیٹر