مارچ تک پنجاب کے سارے خاندانوں کو صحت کارڈ ،کم آمدن والوں کو احساس کا رڈملے گا۔۔وزیراعظم عمران خان

Dec 13, 2021 | 19:03:PM

Read more!

(24نیوز)وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ کسی بھی غریب گھرانے کے لیے بیماری سب سے مشکل وقت ہوتا ہے اور مارچ تک پنجاب کے سارے خاندانوں کو صحت کارڈ ملے گا۔

تفصیلات کےمطابق لاہور میں نیاپاکستان صحت کارڈ کے اجرا کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے  کہا کہ ایک غریب گھرانے میں بیماری ہوتی ہے تو اس گھر پر کیا گزرتی ہے، مجھے اس کا کبھی علم نہیں تھا جب تک میری والدہ بیمار نہیں ہوئی۔

یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم سے وزیرِ اعلیٰ اور گورنر پنجاب کی الگ الگ ملاقاتیں۔۔اہم امور پر بریفنگ دی

ان کا کہنا تھا کہ کینسر کا بہت مہنگا علاج ہے، مریض بھی جاتا تو ساتھ میں اس کے اہل خانہ بھی تباہ ہوجاتے تھے، اسی لیے میں نے شوکت خانم ہسپتال بنایا۔انہوں نے کہا کہ اگر آپ معاشرے میں سب سے بڑا کام کرنا چاہتے ہیں تو وہ یہ ہے کسی گھرانے میں لوگوں پر یہ عالم نہ آئے کہ ہمارے پاس پیسے نہیں تھے تو ہم علاج نہیں کرواسکتے ہیں۔

وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ یہ سب سے زیادہ کسی انسان پر مشکل وقت گزرتا ہے، بچوں پر اپنے ماں باپ کو دیکھ کر اور والدین کو اپنے بچوں کو دیکھ کر اسی وقت میں نے سوچا تھا کہ اس ملک میں ایک ہی طریقہ ہے ایک صحت انشورنس ہو کہ معاشرے میں غریب سے غریب آدمی کو گھر میں بیماری یا مشکل آتی ہے تو اس کو یہ خوف نہ ہو علاج کے لیے ہمارےپاس پیسہ نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ ریاست مدینہ کی لوگوں کو سمجھ نہیں آتی ہے اسی لیے ہم نے رحمت اللعالمین اتھارٹی بنائی ہے تاکہ اپنے بچوں، نوجوانوں اور تمام لوگوں کو پتہ چلے کہ سیرت النبیﷺ کیا تھی اور دنیا کی تاریخ میں کتنا بڑا انقلاب آیا تھا، جس کو ہم ریاست مدینہ کہتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ایک پوائنٹ سب کو سمجھنا ہے کہ جب نبی اکرمﷺ نے ریاست مدینہ کی سربراہی سنبھالی تو مسلمان غریب ترین تھے، زیادہ تر لوگ ہجرت کرکے آئے تھے اور ان کے پاس کچھ نہیں تھا اور غربت کی انتہا تھی تو انہوں نے تب فیصلہ کیا کہ ہم اس کو ایک فلاحی ریاست بنائیں گے۔انہوں نے کہا کہ یورپ میں بڑے پیسے ہیں تو ان کی بہترین فلاحی ریاست ہے لیکن مدینہ کی ریاست میں پیسے نہیں تھے، اللہ کہتا ہے ریاست میں پہلے انسانیت لے کر آتے ہیں پھر اس ریاست کے پاس پیسہ آتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم 74 سال سے انتظار کر رہے تھے پاکستان میں جب پیسہ آئے گا تو اس کو فلاحی ریاست بنائیں گے، ہماری قرارداد مقاصد واضح کہتی ہے کہ پاکستان کو اسلامی فلاحی ریاست بننی ہے لیکن نہیں بنی کیونکہ حکمران انتظار کر رہے تھے پہلے پیسہ آئے گا ہم امیر ہوں گے پھر فلاحی ریاست بنے گی۔انہوں نے کہا کہ نبی اکرمﷺ نے مدینے میں ثابت کیا کہ پہلے انسانیت کا نظام آتا ہے پھر اللہ خوش حالی کا نظام لے کر آتا ہے، پہلے خوش حالی نہیں آتی کہ آپ فلاحی ریاست بنائیں۔

وزیراعظم نے کہا کہ جب آپ اللہ کو خوش کرتے ہیں اور اللہ تب خوش ہوتا ہے جب اس کی مخلوق کی خدمت کرتے ہیں، سب سے زیادہ دعائیں دکھی انسانیت کی لگتی ہیں۔جب میں نے شوکت خانم ہسپتال بنایا اور مارچ 1995 میں بورڈ کا اجلاس ہوا اور باہر سے چیف ایگزیکٹیو لائے تو اس نے پہلی ایگزیکٹیو کمیٹی میں کہا کہ آپ نے اس ہسپتال میں 5 فیصد سے زیادہ مفت علاج کیا تو یہ آپ کا کینسر ہسپتال 3 مہینے میں بند ہوجائے گا۔

انہوں نے کہا کہ دنیا میں کوئی نجی کینسر کا ہسپتال نہیں چل سکتا جہاں 5 فیصد سے زیادہ مریضوں کا مفت علاج کرتے ہیں، ہم نے 75 فیصد مریضوں کا مفت علاج کیا اور آج تک دنیا میں واحد کینسر ہسپتال ہے جو 75 فیصد مریضوں کا مفت علاج کرتا ہے، صرف یہی نہیں بلکہ پشاور میں اتنا پیسہ ہے دوسرا ہسپتال کھڑا کیا اور کراچی میں سب سے بڑا کینسر ہسپتال بننا شروع ہوا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ آج تک کوئی یہ نہیں بتاسکا کہ کیسے ایک نجی ہسپتال 75 فیصد مریضوں کا مفت علاج کرتے ہوئے چل رہا ہے، ہر سال پہلے سے زیادہ پیسہ جمع ہوتا ہے، غریبوں کے علاج کا سالانہ خرچہ 10 ارب روپے ہے جبکہ 70 کروڑ میں ہسپتال بنا تھا۔وزیراعظم نے کہا کہ اس کی منطق یہ ہے کہ یہ عقل سے نہیں کرتے بلکہ دل سے کرتے ہیں اور اوپر سے اللہ کی برکت آتی ہے، اسی طرح پاکستان پر اللہ کی برکت آئے گی۔انہوں نے کہا کہ جب کورونا آیا تو اپوزیشن نے 3 مہینے مسلسل برا بھلا کہا کہ یہ لاک ڈاؤن نہیں کر رہا اور نریندر مودی کی مثال دی کہ اس نے لاک ڈاؤن کیا ہے، کسی نے کہا جو بھی کورونا سے مرتا ہے اس کی ان پر ایف آئی آر بننی چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں: ملکی تاریخ میں کبھی اتنی قیامت خیز مہنگائی نہیں آئی۔۔شہباز شریف

ان کا کہنا تھا کہ میں نے کیوں نہیں پورا لاک ڈاؤن نہیں کیا، میں نے لوگوں سے بار بار ایک سوال پوچھا کہ اس دیہاڑی دار کا کیا بنے گا جو دیہاڑی کرتا ہے اور بچوں کو کھلاتا ہے جو ہفتے میں کام کرکے کماتا ہے، ٹیکسی ڈرائیور، رکشہ ڈرائیور اور چھابڑی والے کا کیا بنے گا تو کوئی جواب نہیں دیتا تھا۔انہوں نے کہا کہ ہماری بدقسمتی ہے کہ جو ہمارے پیسے والے لوگ ہیں اور اشرافیہ ہے اس کو ہماری فکر ہی نہیں ہے، مجھے کہہ رہے ہیں لاک ڈاؤن لگالو لیکن جواب نہیں دے رہے ہیں وہ کیسے پیٹ پالے گا۔

ان کا کہنا تھاکہ چین نے جب ووہان میں لاک ڈاؤن لگایا تھا تو ایک ایک گھر میں کھانا پہنچایا تھا تو کیا ہم گھروں میں کھانا پہنچائیں، کیا کچے گھروں میں 8،8 لوگ رہتے ہیں، ان کا کیا ہوگا تو کوئی جواب نہیں دیتا تھا لیکن لاک ڈاؤن لگا دو۔کورونا لاک ڈاؤن سے متعلق حکمت عملی کی تعریف کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آج دنیا میں پاکستان کی مثال دی جاتی ہے، دنیا مانتی ہے، اپنی ہم بات نہنیں کر رہے ہیں، یہ اکنامسٹ میگزین آج 172 ملکوں میں کہہ رہا ہے جو ملک کورونا میں سب سے بہتر نکلا، اپنے عوام اور معیشت کو بھی کورونا سے بچایا اس میں پاکستان نمبرون ہے۔

وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ آج جو صحت کارڈ کا افتتاح کیا ہے، اس پر ڈاکٹر یاسمین اور خاص کر عثمان بزدار کو اس لیے خراج تحسین پیش کرنا چاہتا ہوں کہ جب میں نے کہا کہ سارے خاندانوں کو صحت کارڈ دیں تو لوگوں کو شروع میں جھٹکا لگا۔ان کا کہنا تھا کہ پہلے تین برسوں میں 440 ارب روپے خرچ کرنا ہے، اس ملک کی تاریخ میں کسی نے نہیں سوچا، عثمان بزدار اس علاقے سے آتا ہے جہاں سارے پنجاب سے سب سے زیادہ غربت ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ ان گھروں میں کیا گزرتی ہے جب ایک گھر میں بیماری آتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ تین سال میں 440 ارب روپے صحت کے انشورنس میں خرچ ہوں گے جس کا کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا تھا لیکن یہ صرف صحت کا انشورنس نہیں ہے بلکہ ایک صحت کا نظام بھی ہے۔وزیراعظم کا کہنا تھا کہ اب نجی شعبہ ہسپتال بنائے گا، دیہات کے اندر، چھوٹے قصبوں میں جہاں صرف سرکاری ہسپتال ہیں اور وہاں ڈاکٹر نہیں جاتےہیں اور بنیادی صحت مراکز خالی پڑے ہوتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ اب نجی شعبہ آئے گا کیونکہ سب کے پاس صحت کارڈ ہوگا، غریب سے غریب بھی اپنا علاج کرواسکے گا، ان شااللہ آپ دیکھیں گے پاکستان میں ہسپتالوں کا جال پھیلے گا، غریب علاقوں میں جاکر نجی شعبہ ہسپتال بنائے گا۔

وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ مجھے سب سے زیادہ خوشی ہے کہ مارچ تک سارے پنجاب کے خاندانوں کو صحت کارڈ مل جائے گا۔انہوں نے کہا کہ ہم نے احساس کارڈ شروع کیا ہے، ابھی پاکستان کی آدھی آبادی جس کی آمدنی 50 ہزار روپے سے کم ہے اس کو احساس کارڈ ملے گا، مہنگائی کے دور میں آٹا، گھی، دالیں، کریانہ اسٹورز میں جب تک مہنگائی کا سیزن ختم نہیں ہوتا ان کو 30 فیصد رعایت ملے گی۔وزیراعظم نے کہا کہ ہمارا مشکل وقت ہے، ساری دنیا میں مہنگائی آئی ہوئی ہے، اس میں ہم پوری کوشش کر رہے ہیں کہ اپنے لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کریں۔

مزیدخبریں