اسمبلی تحلیل کر کے عمران اور پرویز الہٰی نے سیاسی خودکشی پر دسختط کر دیئے؟

Jan 13, 2023 | 16:39:PM

(عثمان دل محمد) کیا پنجاب اسمبلی تحلیل کر کے عمران خان اور پرویز الہی سیاسی خودکشی کے راستے پر گامزن ہوگئے؟ کیا الیکشن کمیشن ملک میں صاف و شفاف انتخابات کروا پائے گی؟ اہم سوالات کھڑے ہوگئے۔

تفصیلات کے مطابق پنجاب میں نگران سیٹ اپ کے قیام کے لئے پی ٹی آئی حکومت اور اپوزیشن میں بات چیت ہوگی مگر ڈیڈ لاک کی صورت میں گیند الیکشن کمیشن کے کوٹ میں چلے جائے گی جبکہ وفاق میں پی ڈی ایم کی حکومت ہو، جو صوبے میں انتخابات کی صورت میں اثر انداز ہوسکتی ہے۔

دوسری جانب اگر پنجاب میں تحریک انصاف اکثریتی حکومت بنالیتی ہے تو عام انتخابات کے وقت یہ حکومت صاف اور شفاف الیکشن میں رکاوٹ بن سکتی ہے۔ دونوں صورتوں میں صاف شفاف انتخابات کی ذمہ داری الیکشن کمیشن پر عائد ہے۔ آئین اور قانون کے مطابق صاف و شفاف الیکشن ہر صورت ہونے چاہیے۔ اب دیکھنا یہ ہوگا کہ کیا الیکشن کمیشن صاف و شفاف انتخابات یقینی بنانے کے لئے عدالت سے راہنمائی حاصل کرتی ہے؟۔

ضرور پڑھیں :تحریک عدم اعتماد میں ناکامی پر لیگی قیادت پریشان،نوازشریف کے بار بار فون

ادھر ایک طرف تحریک انصاف پنجاب اسمبلی کی تحلیل کو اپنی کامیابی قرار دے رہی ہے جبکہ دوسری جانب سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ قدم عمران خان اور پرویز الہٰی دونوں کے لئے سیاسی خودکشی بھی ثابت ہوسکتا ہے۔ کیونکہ انہوں نے اپنے ہاتھوں سے آدھے پاکستان سے اپنی حکومت کا خاتمہ کر دیا ہے۔

عمران خان دونوں اسمبلیاں تحلیل کر کے وفاقی حکومت پر دباؤ ڈالنے چاہتے تھے کہ وہ قومی اسمبلی سمیت دیگر اسمبلیاں بھی ایک ساتھ تحلیل کرے اور پورے ملک میں ایک ہی وقت میں قبل از وقت انتخابات کروائے۔ لیکن وفاق میں حکمران سیاسی جماعت کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ نے تاحال ایسا کوئی عندیہ نہیں دیا کہ وہ سارے ملک میں الیکشن کروانے کا ارادہ رکھتا ہے۔

سابق وزیراعظم عمران خان کا خیال ہے کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیاں توڑنے کے نتیجے میں اگر وفاقی حکومت مرکز میں الیکشن نہ بھی کروائے تو ان کی جماعت ان دونوں صوبوں میں اتنی اکثریت حاصل کرلے گی کہ پھر عام انتخابات میں بھی مرکز میں دو تہائی اکثریت حاصل کرنا مشکل نہیں رہے گا۔

تاہم سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ چیزیں اتنی آسان نہیں جتنا عمران خان سمجھ رہے ہیں۔ ان کے خیال میں عمران خان نے پرویز الہٰی سے پنجاب اسمبلی تڑوا کر ناصرف آدھے پاکستان میں اپنی حکومت کا خاتمہ کر دیا ہے بلکہ وہ شاخ بھی کاٹ دی ہے جس پر وہ خود بیٹھے ہوئے تھے۔

پنجاب اسمبلی کے خاتمے کے بعد عمران خان حکومت سے کسی قسم کی بارگین کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہے۔ پنجاب میں ان کی حکومت کا خاتمہ ہوتے ہی انکی شاہانہ سکیورٹی اور پروٹوکول کا خاتمہ ہو جائے گا اور وہ بنی گالا کے بعد زمان پارک میں بھی خود کو غیر محفوظ سمجھنا شروع کر دیں گے۔

ذرائع دعویٰ کر رہے ہیں کہ پنجاب حکومت کے خاتمے کے بعد نا صرف چودھری پرویز الہٰی کے خلاف کرپشن کے الزامات پر کارروائی کا آغاز ہوگیا بلکہ عمران خان کی نااہلی کا فیصلہ بھی آسکتا ہے۔ فیصلہ ساز حلقوں کا کہنا ہے کہ ابھی تو پراجیکٹ عمران خان لپیٹنے کا عمل شروع ہوا ہے جس کی انتہا اگلے دو مہینوں میں دیکھنے کو ملے گی۔

اُن کا کہنا ہے کہ عمران خان اور ان کی تحریک انصاف کیساتھ ہر وہ واردات ہوگی جو نواز شریف کو وزارت عظمٰی سے ہٹانے کے بعد ہوئی تھی۔ ذرائع کا کہنا ہے عمران خان نہ تو نااہلی سے بچ پائیں گے اور نہ ہی پارٹی چیئرمین شپ ان کے ہاتھ میں رہے گی۔ نواز شریف کی طرح وہ بھی الیکشن سے پہلے نااہل ہو جائیں گے اور ان کی جماعت ان کے بغیر الیکشن میں اترے گی۔ ایسے میں ان کا پنجاب میں حکومت بنانے کا خواب بکھر جائے گا۔

سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان کی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو جس جماعت کو اقتدار سے نکالا جاتا ہے وہ اگلے انتخابات میں کبھی بھی دوبارہ حکومت نہیں بنا پاتی، جیسا کہ نواز شریف کی جماعت کیساتھ بھی ہوا تھا۔

یہ بھی پڑھیں :سندھ سرکار بلدیاتی انتخابات 15 جنوری کو کروانے کیلئے تیار

اُن کا کہنا تھا کہ اگر حالیہ الیکشن کے نتائج دیکھے جائیں تو تحریک انصاف قومی اسمبلی کی صرف ان سیٹوں پر کامیاب ہوئی تھی جن پر عمران خان خود امیدوار بنے تھے جبکہ شاہ محمود قریشی کی بیٹی ملتان سے الیکشن ہار چکی تھی۔ اسی طرح عمران خان دوسری جماعتوں کے جن عام امیدواروں کے خلاف الیکشن لڑے تھے، ان سے ان کی جیت کا مارجن چند ہزار ووٹوں کا ہی تھا۔

سیاسی تجریہ کار یاد دلاتے ہیں 2018 کے بدترین دھاندلی زدہ انتخابات میں بھی پی ٹی آئی نے 147 اور ن لیگ نے 130 نشستیں حاصل کی تھی جبکہ عمران خان پورے زوروں پر تھے اور نواز شریف نااہل ہوچکے تھے، چنانچہ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اب اگر نواز شریف وطن واپس آجاتے ہیں اور عمران خان نااہل ہو جاتے ہیں تو ن لیگ کے لئے اگلے الیکشن سے پہلے ساز گار صورتحال پیدا ہوجائے گی۔

 یاد رہے وزیراعلیٰ پرویز الہٰی نے پنجاب اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری پر دستخط کر کے گورنر کو بھجوا دی ہے، جس کے نتیجے میں ان کے اقتدار کا خاتمہ ہونے جا رہا ہے، اب ایک نگران سیٹ اپ وجود میں آئے گا جو صوبے میں نئے الیکشن کروائے گا۔

آئینی طور پر گورنر پنجاب کے پاس دو دن کا وقت ہے، جس میں انہیں وزیراعلیٰ کی سمری پر عملدرآمد کرنا ہے، تاہم اسوقت میں وہ ایسا نہیں کرتے تو اسمبلی کو تحلیل تصور لیا جائے گا، آئین کے مطابق اگر کوئی اسمبلی اپنی مدت مکمل ہونے سے پہلے ختم ہو جائے تو الیکشن کمیشن 90 روز کے اندر انتخابات کروانے کا پابند ہے۔

مزیدخبریں