کورونا سے متاثرہ ملکوں کیلئے 150ارب ڈالر مختص کئے جائیں۔۔ وزیر اعظم 

Jul 13, 2021 | 21:21:PM

Read more!

 (24نیوز)وزیراعظم عمران خان نے واضح کیا ہے کہ عالمی معیشت اس وقت تک مکمل بحال نہیں ہو گی جب تک تمام ممالک پائیدار ترقیاتی مقاصد اور ماحولیاتی اہداف کے حصول کیلئے سرمایہ کاری میں اضافہ نہیں کرتے، مستحکم اور خوشحال دنیا کی تشکیل کیلئے تنازعات کے پرامن و منصفانہ حل اور عالمی تعاون کو فروغ دینے پر توجہ مرکوز کرنا چاہئے،توقع ہے آئی ایم ایف، عالمی بینک اور دیگر ترقیاتی بینکوں اور اداروں کے ذریعے ترقی پذیر ممالک میں پائیدار ترقیاتی مقاصد اور پروگراموں کی فنانس کیلئے کم از کم150 ارب ڈالر دوبارہ مختص کئے جائیں گے۔
منگل کو اقوام متحدہ کے اعلی سطحی سیاسی فورم برائے پائیدار ترقی سے کلیدی خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ یہ اعلی سطحی سیاسی فورم انسانی تاریخ کے ایک نازک موقع پر منعقد ہو رہا ہے جب دنیا کو کووڈ۔19 کی وبا، معاشی ترقی کے انحطاط اور ماحولیاتی تبدیلی کے باعث بقاکے خطرے کے تین بڑے چیلنجوں کا سامنا ہے، کووڈ وبا سے نمٹنے کے سلسلے میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل اور عالمی ادارہ کے سسٹم کی امداد اور بحالی کی کوششوں کے حوالے سے ان کے بہترین کردار کو سراہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اللہ تعالی کے فضل سے پاکستان دیگر ممالک کی نسبت زیادہ خوش قسمت رہا ہے، سمارٹ لاک ڈاﺅن کی پالیسی اور کم مراعات یافتہ لوگوں پر توجہ کی بدولت ہم وائرس پر بڑی حد تک قابو پانے میں کامیاب رہے ہیں، ہم نے لوگوں کی قیمتی جانیں اور ان کا روزگار بچایا، کووڈ وبا پر قابو پانے کی حکمت عملی اور احساس سماجی تحفظ کے پروگرام کی عالمی پذیرائی کو بھی سراہتے ہیں، اب ہم اپنی ویکسینیشن مہم کو تیز کرنے کےلئے ہر ممکنہ کوششیں بروئے کار لا رہے ہیں۔
 انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے کووڈ 19کی عالمی اور علاقائی وبا سے وہ عدم مساوات سامنے آئی جو اقوام میں موجود ہے، عالمی معیشت اس وقت تک مکمل بحال نہیں ہو گی جب تک تمام ممالک بشمول امیر اور غریب پائیدار ترقیاتی مقاصد اور ماحولیاتی اہداف کے حصول کیلئے سرمایہ کاری میں اضافہ اور تیزی نہیں لاتے، قومی اور عالمی سطح پر اقدامات ان تینوں چیلنجوں سے موثر طور پر نمٹنے کیلئے ضروری ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اول، وائرس کو شکست دینے اور عالمی تجارت، سرمایہ کاری اور ترقی کی بحالی کیلئے کووڈ19 ویکسین تک عالمگیر اور قابل استعداد رسائی ضروری ہے، دنیا ترقی پذیر ممالک سمیت ویکسین کی تیاری میں تیزی لائے اور اس کی جلد تقسیم کو یقینی بنائے، اس کے ساتھ ہی بڑے ممالک کی جانب سے کیا جانے والا تعاون بھی قابل تعریف ہے، ابھی اس سلسلے میں بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوںنے کہاکہ ہمیں فوری طور پر جو اقدامات کرنے ہیں ان میں فوری اور اشد ضروری اقدامات میں حقوق ملکیت دانش سے استثنا خواہ یہ عارضی ہو، لائسنس کے تحت ویکسین کی تیاری، کوویکس سہولت کی فنڈنگ اور ترقی پذیر ممالک کی طرف سے ویکسین کی فیئر پرائسز پر خریداری کیلئے گرانٹس اور قرضہ کی فراہمی شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دوئم، کووڈ کی بحالی، پائیدار ترقیاتی مقاصد پر عملدرآمد اور ماحولیاتی اہداف کے حصول کے تہرے چیلنج سے نمٹنے کیلئے ترقی پذیر ممالک کیلئے مناسب فنڈز کو متحرک کیا جانا چاہئے، ان تینوں چیلنجوں کیلئے باہم تعاون کی ضرورت ہے جسے پہلے سے بہتر کی تعمیر کے نصب العین کے ساتھ بروئے کارلانا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ زیادہ آمدن والے ممالک اپنی معیشت کو تقویت دینے کے لئے 17 ٹریلین ڈالر کی معاونت فراہم کی، دوسری طرف ترقی پذیر ممالک کو بحرانوں سے نمٹنے اور پائیدار ترقیاتی مقاصد پر عملدرآمد کیلئے کم ازکم 4.3 ٹریلین ڈالر کی ضرورت ہے، بدقسمتی سے ترقی پذیر ممالک اب تک اس رقم کے 5 فیصد سے بھی کم فنڈز تک رسائی حاصل کرسکے ہیں۔
 وزیراعظم نے کہا کہ گزشتہ ستمبر میں انہوں نے ایک نئے آئی ایم ایف سپیشل ڈرائنگ رائٹس کے قیام کی تجویز دی تھی جس کا مقصد موثر طور پر ڈویلپمنٹ فنانسنگ کو فروغ دینا ہے، نئے ایس ڈی آرز میں 650 ارب ڈالر پیدا کرنے کے معاہدہ کا خیرمقدم کرتے ہیں، اگرچہ غریب ترین ممالک کیلئے رکھے گئے اضافی ذخائر درکار بھاری مالیاتی معاونت کے قریب نہیں ہیں، اس لئے یہ ضروری ہے کہ آئی ایم ایف کے ڈائریکٹر جنرل کی اس تجویز کی فوری طور پر منظوری دی جائے کہ زیادہ آمدن والے ممالک اپنے آئی ایم ایف کے غیراستعمال شدہ کوٹہ جات کا ایک حصہ رضاکارانہ طور پر ازسرنو وقف کریں۔ ۔ انہوں نے کہا کہ متاثرہ ترقی پذیر ممالک کیلئے مالیاتی گنجائش اور ڈویلپمنٹ فنانس کی فراہمی کیلئے مہنگے قرضوں کی ری سٹرکچرنگ ایک اور ضروری عنصر ہے، قرضوں کی ری سٹرکچرنگ کیلئے کوئی عمومی فریم ورک، طویل بات چیت پر مبنی نہیں ہونا چاہئے کیونکہ اس طرح قرضوں کے ریلیف کا مقصد ختم ہوجائے گا۔ انہوں نے کہا کہ اس نازک موقع پر ترقی پذیر ممالک کیلئے او ڈی اے کمٹمنٹ 0.7 فیصد اور 50 ارب ڈالر کے ایڈوانس آئی ڈی اے ،20 ونڈو سمیت رعایتی اور گرانٹ فنانس کے وعدوں کو لازمی پورا کیا جائے چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ اسی طرح گلاسگو میں سی او پی ۔26 کی کامیابی سمیت ماحولیاتی فنانس کے 100 ارب ڈالر سالانہ کی فراہمی کیلئے ترقی یافتہ ممالک کی جانب سے کمٹمنٹ کو پورا کرنا ضروری ہے۔ ماحولیاتی فنانس کی مجموعی کمٹمنٹ اب ایک ٹریلین ڈالر سے زائد ہے۔ او ڈی اے سمیت ترقیاتی تعاون کیلئے پیش کردہ رقم ماحولیاتی فنانس کمٹمنٹ کے سلسلے میں دوبار نہیں گنا جا سکتی۔
 انہوں نے کہا کہ ماحولیاتی فنانسنگ کیلئے کم ازکم 50 فیصد رقم موافقت کے لئے مختص کر دینی چاہئے جس سے ترقی پذیر ممالک مشترکہ مگر مختلف نوعیت کی ذمہ داریوں کے اصولوں کے ساتھ اپنی ماحولیاتی کمٹمنٹ پر عملدرآمد کر سکیں گے۔ پاکستان کے شاندار منصوبے جن میں ری چارچ انیشیٹیو اور 10 ارب ٹری سونامی پراجیکٹ شامل ہیں ، اس قسم کی معاونت سے بہت زیادہ استفادہ کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سوئم، قومی اور بین الاقوامی ترقیاتی حکمت ہائے عملی میں ان شعبوں کو ہدف بنایا جانا چاہئیں جن سے ترقی پذیر ممالک تینوں چیلنجوں سے نمٹ سکیں جن میں کووڈ بحالی، انسانی ترقی، سماجی تحفظ، متبادل توانائی، پائیدار زراعت، ماحولیاتی تبدیلی اور ڈیجیٹلائزیشن شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پائیدار انفراسٹرکچر میں سرمایہ کاری جو ایس ڈی جیز کے 92 فیصد پر اثر رکھتی ہے ترقیاتی حکمت ہائے عملی کا مرکزی حصہ ہونا چاہئے، اقوام متحدہ اپنی منفرد اجتماعی قوت کے ساتھ ایک ٹریلین ڈالر کی سرمایہ کاری بروئے کار لانے کیلئے کثیرالجہتی سٹیک ہولڈرز ڈائیلاگ کا آغاز کریں جو سالانہ پائیدار انفراسٹرکچر کیلئے درکار ہے۔
عمران خان نے کہا کہ ایس ڈی جیز انویسٹمنٹ فیئر سمیت اقوام متحدہ کا ڈویلپمنٹ سسٹم ترقی پذیر ممالک کو ایسے موزوں منصوبے تجویز کرنے کیلئے معاون ہو سکتا ہے جس سے سرکاری اور نجی سرمایہ کاری کو ترغیب مل سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ چہارم، بین الاقوامی مالیاتی اور تجارتی آرکیٹیکچر کے ڈھانچہ جاتی اور منظم نقائص کو جامع اور فوری طور پر حل کرنے کی ضرورت ہے۔ بین الاقوامی تجارتی نظام تمام ترقی پذیر ممالک کو عالمی منڈیوں تک مساویانہ اور ترجیح رسائی فراہم کرے۔ بعض بڑی معیشتوں کی جانب سے ڈبلیو ٹی او معاہدوں کی خلاف ورزیوں کرتے ہوئے اٹھائے گئے تحفظاتی اقدامات کا خاتمہ کیا جانا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ ترقی پذیر ممالک کی طرف سے باہر منتقل کئے جانے والے ناجائز سرمایہ کی خطیر رقوم کے بہاﺅ کو بھی ضرور روکا جانا چاہئے، ان ممالک کے چوری شدہ اثاثہ جات غیر مشروط طور پر واپس کئے جائیں۔ ایف اے سی ٹی آئی پینل کی چودہ سفارشات توثیق اور عملدرآمد کی مستحق ہیں۔ انہوں نے کہا کہ منافع کی منتقلی اور ٹیکس چوری کے خاتمہ کیلئے کم سیکم عالمی کارپوریٹ ٹیکس کی امریکی تجویز کا خیرمقدم کرتے ہیں۔

مزیدخبریں