(ویب ڈیسک) مدھیہ پردیش کی ایک ٹیچر کو نوکری سے اس لیے ہٹا دیا گیا کیونکہ اس نے اپنے تیسرے بچے کو جنم دیا تھا۔
یہ ٹیچر اب اندور ہائی کورٹ گئی ہیں تاکہ انھیں دوبارہ ملازمت پر بحال کیا جاسکے۔
یہ خاتون رحمت بانو منصوری گورنمنٹ سیکنڈری سکول، بیجا نگری میں سیکنڈری ٹیچر کے طور پر تعینات تھیں۔ انھیں سات جون کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا گیا ہے۔
انھیں ہٹانے کے لیے، مدھیہ پردیش سول سروسز، 1961 کے قاعدہ 6 میں ترمیم شدہ شق کا استعمال کیا گیا ہے۔
اس کے تحت اگر کسی ملازم کا 26 جنوری 2001 کے بعد تیسرا بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس کی سروس ختم کی جاسکتی ہے۔
اس شق کے مطابق وہ امیدوار بھی جنہوں نے تمام قسم کے امتحانات پاس کر کے اپنی اہلیت ثابت کر دی ہے، اگر وہ تین بچوں کے والدین ہیں تو انھیں تقرری کے لیے موزوں نہیں سمجھا جائے گا۔
رحمت بانو منصوری کے ہاں تیسرے بچے کی پیدائش سال 2009 میں ہوئی تھی تاہم 2020 میں شکایت کی گئی اور انھیں رواں ماہ عہدے سے ہٹا دیا گیا۔
ان کی شکایت مدھیہ پردیش ٹیچرس کانگریس نے کی تھی۔ انکوائری کرنے کے بعد، جوائنٹ ڈائریکٹر پبلک ایجوکیشن ڈویژن، اجین نے ایک حکم جاری کیا اور رحمت کی سروس کو ختم کر دیا۔
رحمت بانو آگر مالوا کے سرکاری سیکنڈری سکول میں کیمسٹری کی ٹیچر تھیں۔ انھوں نے سال 2003 میں کنٹریکٹ کیٹیگری دوم میں ملازمت شروع کی۔
رحمت نے بتایا کہ ان کی ایک بیٹی اور دو بیٹے ہیں۔ پہلی بیٹی 2000 میں پیدا ہوئی جو بی اے ایم ایس کر رہی ہے۔ اور دوسرا بیٹا جو 2006 میں پیدا ہوا تھا وہ فی الحال کوٹا سے نیٹ کی تیاری کر رہا ہے جبکہ تیسرا بیٹا جو 2009 میں پیدا ہوا تھا وہ 10ویں کلاس کا طالب علم ہے۔
ان کے شوہر سعید احمد منصوری ایک مدرسے میں کام کرتے ہیں۔ ان کی تنخواہ تقریباً 5000 سے 6000 ہزار روپے ہے۔ رحمت بانو کے مطابق پورے خاندان کی ذمہ داری ان پر ہے اس لیے اب ان کے لیے بچوں کو پڑھانا آسان نہیں ہوگا۔
رحمت بانو نے قبول کیا کہ وہ حکومت کی جانب سے دو سے زائد بچوں کی پیدائش کی صورت میں ملازمت چھوڑنے کے انتظام سے آگاہ تھیں۔
ان کا دعویٰ ہے کہ ’اس بچے کے حمل کے بارے میں انھیں بہت دیر سے معلوم ہوا۔ اس صورتحال میں ڈاکٹر نے اسقاط حمل سے انکار کر دیا۔ ڈاکٹر نے کہا کہ ایسی صورت حال میں ماں اور بچے دونوں کی جان کو خطرہ ہو سکتا ہے۔ جس کی وجہ سے اس بچے کو جنم دینا پڑا۔‘