والدین کا پھول نریندرا مودی اپنے ہم وطنوں کیلئے زہریلا کانٹا کیسے بنا؟

سجاد اظہر پیرزادہ

Jun 13, 2024 | 17:18:PM

جس طرح ایک گول گپا کھٹے میٹھے پانی کے بغیر ہمیں بدمزہ لگتا ہے۔ اسی طرح یہ گول مول زمین، نظام شمسی کا یہ واحد سیارہ، جہاں زندگی موجود ہے، اس کی لذت بھی چلتے پھرتے رنگ برنگے پھولوں کے سبب ہی قائم و دائم ہے۔۔۔کیا آپ نے کبھی چلتے پھرتے رنگ برنگے پھول دیکھے ہیں؟۔

میرے گھر میں دو پھول ہیں۔۔۔ساڑھے چار سال کا اَمَن اور تین سال کی حُسنا۔۔۔آپ کے گھر میں بھی ننھے منے پھول ہونگے۔۔۔میاں شریف کے گھر میں ایک پھول کا نام نوازشریف تھا۔ حاکم زرداری  اپنے گھر کے لان میں چلتے پھرتے کھیلتے بھاگتے پھول کو آصف پکارتے تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو کا گھر بے نظیر نام کے پھول سے چہچہاتا تھا۔۔۔اسی طرح دامودر داس مودی کے گھر میں بھی ایک پھول تھا، جس کا نام تھا نریندر مودی۔۔۔لوگوں کے گھروں میں کام کرکے ان کا ہاتھ بٹاتی ماں' اور سٹیشنز پر تھکے ہارے مسافروں کو چائے بیچ کر انہیں توانائی فراہم کرتے باپ نے' خوب کوشش کی کہ انکا ننھا پھول مودی بھی معاشرے کیلئے فائدہ مند شہری ثابت ہو۔۔۔یہ بچہ مگر سماج کیلئے نفرت، مذہبی انتہاپسندی اور نسلی عصبیت کی اڑتی دھول ثابت ہوا۔۔۔ایسی دھول' جس نے اپنی سوچ،عقیدےسےجدا نظر آتے' اپنے ہم وطن رنگ برنگے پھولوں کو' ٹھہرے ہوئے ناپاک پانی جیسی اپنی ذہنیت تلے روند کر رکھ دیا۔

سب والدین کیلئے ان کے بچے ہی ان کے پھول ہوتے ہیں۔۔۔والدین کے پھول اگر گھر سے بھاگ کر برائی کی راہ پر چل نکلیں تو وہ سڑکوں اور بازاروں میں،گلیوں اور چوباروں میں کانٹوں کی طرح بکھر کر آتے جاتے ہم وطنوں کو زخمی کرتے ہیں۔۔۔دامودر داس مودی کا پھول بھی گھر چھوڑ کر بھاگ نکلا تھا۔۔۔ آج اپنے والدین کا وہ پھول ایک چلتا پھرتا کانٹا بن گیا ہے۔۔۔جسے ہندوستانی نگل پارہے ہیں نہ اُگل پارہے۔

ابھی ابھی ہندوستان میں الیکشن 2024 ہوا ہے۔۔۔نفرت بیچ کر صلے میں جنتا سے دو تہائی اکثریت سے بھی زیادہ کی امید کرنے والے' کانٹا مودی شرمناک طریقے سے وہ 63 سیٹیں بھی ہار گئے' جو انہوں نے 2019 کے الیکشن میں جیتی تھیں۔۔۔کھینچ کھینچ کے صرف 240 نشستیں حاصل کر پائے ہیں۔۔۔اس کھینچا تانی میں کانٹا صاحب سب کچھ گنوا بیٹھے۔۔۔نریندر مودی کا سب کچھ بابری مسجد کے نام پر وحشت ناک سیاست تھی۔۔۔ 44 سال تک بابری مسجد کی جگہ پر رام مندر بنانے کا وعدہ کرکے' انہوں نے ہندواکثریت کو جو "رام راج" کا خواب دکھایا تھا، اور پھر مسجد ڈھا کر مندر بنایا بھی، اس کے باوجود رام مندر کے علاقے فیض آباد ایودھیا سے ہی ہارگئے۔۔۔اور اپنا سب کچھ گنوا بیٹھے۔۔اتنے شرمناک طریقے سے ہار!!۔۔میرے سامنے میز پر رکھے گلاس میں چلو بھر پانی ابھی باقی ہے۔۔۔کہیں تو لاہور سے دہلی بھجوا دیں؟۔

اس میں تو کوئی شک نہیں کہ ہمارے ہاں بھی کانٹا صاحب جیسے بہت سے کانٹے ہیں۔۔۔والدین نے جنہیں پھول بنانا چاہا مگر وہ کانٹا صفت بن گئے۔۔۔ اور جو اب پاکستان کی ترقی کی راہ میں بچھے ہیں۔۔۔چلتی مگر فیض آباد میں بیٹھ کر کٹر سیاست کرنے والے کسی دھرم فروش کی ایک بھی نہیں۔۔۔پاکستان کے فیض آباد میں ریاست کی جڑیں کاٹنے کیلئے کروایا گیا دھرنا ہو یا ہندوستان کے فیض آباد میں کٹر مذہبی سیاست کے بل بوتے پر مفاد حاصل کرنے کیلئے رام مندر کی تعمیر، ہاتھ کسی پنڈت یا مولوی صاحب کے کچھ نہیں آیا۔بھائی صاحب! لوگ اب سمجھ دار ہوگئے ہیں۔ روزگار، مہنگائی کا خاتمہ،انصاف کی فراہمی، قانون کی حکمرانی اور عزت مانگتے ہیں۔

دوسروں کو بُرا اور اپنے کو اچھا سمجھنے والوں کی بُری کمپنی ایک دن انسانوں کے بچوں کو بھیڑیوں کے ریوڑ میں تبدیل کرکے چھوڑتی ہے۔۔۔پھر بھیڑیوں کا یہ ریوڑ کسی بچے کو کیسے بگاڑتا ہے، کوئی جاننا چاہے تو نیٹ پر تلاش کرکے نریندر مودی کی یہ کہانی پڑھ لے۔۔۔باپ کیساتھ سٹیشنز پر چائے بیچتے بیچتے مودی 8 سال کے ہوئے، تو صرف اتنی سی ہی عمر میں ایک دن انسانی بھڑیوں کے ریوڑ آر ایس ایس کے ہوگئے۔۔۔کچھ 10 سال آر ایس ایس کی انسانوں کو فرقہ بندی کی لعنت میں مبتلا کرتی ذہنی تربیت میں گزرے، اور پھر 18 سال کی عمر میں یہ لڑکا ماں باپ کو چھوڑ کر اپنے گھر سے بھاگ گیا۔۔اور 73 سال کی عمر کو پہنچنے کے باوجود ابتک پلٹ کر واپس گھر نہیں گیا۔۔۔

نریندرا مودی بغیر کسی سبب کے' اپنے چار بھائیوں کی خوشی غمی میں کبھی شامل نہیں ہوئے۔ اپنی دھرم پتنی کو شادی کے بعد 55 سال سے آج تک تنہا رکھا ہوا ہے۔۔۔کیا ایسا ذہنی مریض آدمی' جس نے اپنے گھر میں انسانی رشتوں کی کبھی قدر نہیں کی۔۔۔جس نے اپنے ایک مخصوص عقیدے کے چند من پسندیدہ اسباق کے سوا' تاریخ،ادب،موسیقی،سائنس،فلسفہ سمیت دیگر علوم کی کبھی اپنے ذہن میں چہل پہل نہیں دیکھی۔۔۔وہ جس نے اپنے آنگن میں ننھے بچوں کی چہچہاہٹ نہ سنی ہو۔ کیا ایسا شخص کسی محبت،کسی الفت،کسی خیرخواہی یا رواداری جیسے آفاقی نظریات سے آشنا بھی ہوسکتا ہے؟۔ پھر بھی کسی کو یہ امید کہ نریندرا مودی انسانوں کے درمیان انصاف کریں گے؟۔ اپنے ملک میں اپنے ہم وطن مسلمان شہریوں کی بےعزتی کرتے ہوئے انہیں گھس بیٹھیا نہیں کہیں گے؟۔ کیسی بات کرتے ہیں صاحب! آپ کیسی بات کرتے ہیں!۔

ضرورپڑھیں:مائی لارڈ ، مجھے توہین کرنے کی اجازت دی جائے!  انوکھا کیس، انوکھی منطق 

میں ناچیز پاکستان کے ان صحافیوں میں شامل ہوں، جو ہندوستان سے تجارت، امن،دوستی کی ڈنکے کی چوٹ پر بات کرتے ہیں۔۔۔اور ہمسائیگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہمیں ہندوستان سے وہ سب کیوں نہیں لینا چاہیے، جس سے ہماری آئی ایم ایف سے جان چھٹ جائے؟۔۔چلیے ہمارے پاس یہ تو زبردست بزدلانہ بہانہ ہے کہ ہمسائے ایران سے تجارتی تعلقات استوار کرنے پر انکل سام کی پابندی لگی ہوئی ہے۔۔۔اچھا ذرا یہ بتائیے کہ دوسرے پڑوسی ہندوستان سے تجارت کرنے سے کون سے انکل نے روک رکھا ہے؟ آخر سونے کی چڑیا کہلاتی سونا اگلتی وہ سرزمین ہمارے آبائو اجداد کی ہی ملکیت تھی۔۔۔آخر وہ سارے رقبے جو 1947 میں ہم چھوڑ آئے، وہ گھر جو ہمارے بڑوں نے زندگی بھر کی جمع پونجی سے بنائے، کیا کسی مودی کے باپ کے ہیں؟۔۔۔تجارت کے راستے ہمیں سود سمیت سب کچھ واپس لینا چاہیے۔

صحیح اور غلط میں تمیز کی اخلاقی حس ختم ہوجاتی ہے اگر انسان متعصب ہوجائے۔ اپنے وطن میں بسنے والی اقلیتوں کو ستانے والے متعصب ہوتے ہیں۔ تعصب کی یہ بیماری بے ضمیری کہلاتی ہے۔ کانٹا صاحب اپنی ساری زندگی صحیح اور غلط میں تمیز اس لیے نہیں کرپائے کہ وہ بے ضمیر ہوچکے۔۔۔ مودی کے بے ضمیر ہونے کا اس سے بڑا ثبوت کیا ہوگا کہ انکی ساری زندگی میں اپنے ہم وطن مسلمانوں کیساتھ بس اچھے سلوک کی کمی رہی۔ اور اب کانٹا صاحب شکوہ کناں ہیں کہ ہندوستانی جنتا نے دو تہائی اکثریت نہیں دی۔۔۔
پھول اور پھل کی تمنا تو ہے جائز لیکن۔۔۔۔۔غور اس پر بھی کریں آپ نے بویا کیا ہے۔

ضروری نوٹ:بلاگر کے ذاتی خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔ایڈیٹر 

سجاد پیرزادہ لاہور میں مقیم سینئر صحافی، محقق اور تجزیہ نگار ہیں۔ چین اور بھارت میں بھی صحافتی خدمات انجام دے چکے ہیں۔ وہ انٹرنیشنل میڈیا فورم فار پیس اینڈ ہارمونی کے چیئرمین بھی ہیں۔ ان سے sajjadpeerzada1@hotmail.com پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

مزیدخبریں