ایکشن  شروع 

نوید چودھری

Jun 13, 2024 | 19:43:PM

محسوس ہورہا ہے کہ ریاست نے ایک قدم آگے، ایک قدم پیچھے والی حکمت عملی کو تبدیل کرنے کا ارادہ کرلیا ہے۔دوسری جانب کے پی کے کی صورتحال ہر لحاظ سے خراب ہوتی جارہی ہے۔امن و امان اس حد تک ابتر ہوچکا ہے کہ مولانا فضل الرحمن کہنے پر مجبور ہوگئے کہ صوبے میں حکومت کی رٹ نظر نہیں آرہی۔ اتوار کو لکی مروت میں فوجی گاڑی کو نشانہ بنایا گیا جس میں کیپٹن سمیت سات فوجی اہلکار شہید ہو گئے۔ پاک فوج نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے دو روز بعد اسی علاقے میں گیارہ دہشت گردوں کو ہلاک کردیا۔ صوبے کے مختلف حصوں میں ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں موجودگی ایک بڑے آپریشن کا سبب بن سکتی ہے۔ اس ماحول میں جب وزیراعلیٰ گنڈا پور وفاق پر چڑھائی کی دھمکی دیتے ہیں تو وہ اس لیے بھی زیادہ سنگین لگتی ہے کہ ترقیاتی کام نہ ہونے، بیڈ گورننس اور سرکاری رقوم کا غیر متعلقہ شعبوں پر استعمال عوامی سطح پر گھٹن کا سبب بن رہا ہے۔ وہ خود چاہتے کہ اپنی ناکامیوں کا ملبہ کسی اور کے سر ڈال کر”شہید“ بن جائیں۔ پی ٹی آئی کے اسیر بانی اڈیالہ جیل میں شدید اضطراب میں مبتلا ہیں اور کسی بھی قیمت پر باہر آنا چاہتے ہیں۔ ایسے ماحول میں سی پیک پر پیش رفت کے آثار پیدا ہونے لگیں اور تاثر ملے کہ اسٹیبلشمنٹ کی بیساکھیوں پر کھڑی حکومت آہستہ آہستہ اپنے قدم جمانے لگی ہے تو پھر ان تمام کرداروں کا بے چین ہوکر نئی مہم جوئی کیلئے  کوشش کرنا سمجھ میں آتا ہے۔

 ڈی جی آئی ایس پی آر اپنی میڈیا بریفنگ میں کہہ چکے ہیں کہ اگر ملک میں گڑبڑ کی تحقیقات کرنا ہے تو پھر بات 2014 کے واقعات سے شروع ہوگی۔ یعنی اس حقیقت کا اعتراف کرلیا گیا کہ عمران خان اور طاہر القادری کے دھرنوں اور بعد میں پیش آنے والے واقعات میں جنرل اور جج ملوث تھے۔ امریکہ تو سی پیک کا کھلا مخالف ہے ہی، پڑوسی ملکوں کو بھی اس پر بہت تکلیف ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف کے دورہ چین کے دوران آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو پاکستان سے بھی مدعو کرکے مذاکرات میں شامل کرنا قابل غور ہے۔ چین کی قیادت کو بھی اب تک اس بات پر تشویش ہے کہ سی پیک شروع ہونے کے بعد صرف پی ٹی آئی کی حکومت نے ہی نہیں بلکہ ریاستی اداروں نے بھی تعاون نہیں کیا۔ سکیورٹی کے حوالے سے بھی گہرے خدشات ہیں۔ اسی لیے چینی قیادت نے مناسب سمجھا کہ سی پیک پر معاملات آگے بڑھانے سے پہلے تمام سٹیک ہولڈروں کو اعتماد میں لیا جائے۔

 پاک چین اقتصادی تعلقات کے حوالے جہاں ایک بار پھر گرمجوشی پیدا ہو رہی ہے وہیں یہ خطرات منڈلانا شروع ہو گئے ہیں کہ پہلے سے سیاسی عدم استحکام کا شکار ملک میں وہی عناصر ایک بار پھر شورش برپا کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں جن کو 2014 میں استعمال کیا گیا تھا۔ عدلیہ اور میڈیا کا بڑا حصہ بھی ان عناصر کی مسلسل حمایت کرکے حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے لیے مشکلات کھڑی کرسکتا ہے۔ یہی سوچ کر ریاست پاکستان نے دیر ہی سے سہی لیکن کچھ اقدامات کرنا شروع کردئیے ہیں۔اب سب کو پتہ چل چکا ہے کہ بے قابو سوشل میڈیا پر لگام ڈالنے کیلئے ایک قومی فائر وال انسٹال نصب کیا جا رہا ہے تاکہ ناپسندیدہ مواد کو وسیع تر انٹرنیٹ صارفین تک پہنچنے سے روکا جا سکے۔ فائر وال دو مقاصد کو پورا کرے گی، ان مقامات کی نشاندہی کرے گی جہاں سے پروپیگنڈے کا مواد شروع ہو رہا ہے اور ساتھ ہی ان اکاؤنٹس کو بلاک کیا جا سکے گا یا پھر اس تک رسائی محدود کر دی جائے گی، یہ فائر وال فلٹرز فیس بک، یوٹیوب اور ایکس (سابقہ ٹوئٹر) جیسے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی نگرانی کیلئے ہوگی۔

وی پی این کے غلط استعمال کو روکنے کی تیاری بھی ہو رہی ہے، ویسے بھی بندش کے بعد ٹوئٹر کا استعمال ساڑھے چار ملین صارفین سے کم ہو کر 2 اعشاریہ 4 ملین تک رہ گیا ہے جس سے پاکستان میں بھی ٹوئٹر کا کاروبار بھی متاثر ہوا ہے، بوٹس کا استعمال بھی کم ہو چکا ہے، حکومت پاکستان کا اعتماد اس لیے بھی زیادہ بڑھ چکا ہے کہ اب ٹوئٹر انتظامیہ جو پہلے بات سننے کی زحمت گوارہ نہیں کرتی تھی نے ماضی کے برعکس حکومت کے مطالبات پر دھیان دینا شروع کر دیا ہے۔ ذمہ دار حکومتی عہدیدار کا کہنا ہے کہ پروپیگنڈا کا سلسلہ جڑ سے اکھاڑا جائے گا۔ اسکے ساتھ پنجاب اسمبلی نے ہتک عزت کا قانون منظور کرکے سوشل میڈیا ہی نہیں بلکہ اخبارات اور چینلوں پر بھی جھوٹا پروپیگنڈا کرنے والوں کے گھیراؤ کا بندوبست کردیا ہے۔ یقینا ان دونوں اقدامات سے سب سے زیادہ پی ٹی آئی اور اس کی سوشل میڈیا ٹیم متاثر ہوگی۔اس کے ساتھ بیرون ملک بیٹھ کر پاکستان میں انتشار پھیلانے والے عناصر کے گھیراؤ کے لیے بھی اقدامات کیے جارہے ہیں۔ بیرون ملک پناہ لینے والے پاکستانیوں کو پاسپورٹ جاری نہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے ایسے پاکستانیوں کے پاسپورٹ منسوخ کردئیے جائیں گے اور دوبارہ تجدید بھی نہیں ہوگی،اگلے مرحلے یہ بھی ممکن ہے کہ ایسے شر پسند عناصر کے شناختی کارڈ بھی بلاک کر دئیے جائیں۔ جو کچھ کہا جارہا ہے اس پر عمل ہوگیا تو اسکے ساتھ عدلیہ میں موجود پی ٹی آئی کے حامیوں اور سرپرستوں کے ساتھ بھی دفاعی یا نرم رویہ رکھنے کا سلسلہ ختم کردیا جائے گا۔

 اشرافیہ کے جس گروہ نے ایک عرصے سے یہ شور مچا رکھا ہے کہ ”عمران نہیں تو پاکستان نہیں“ یا یہ کہ کپتان ایک دیو بن چکا ہے، اس کے ساتھ صلح نہ کی گئی تو سب کو لے ڈوبے گا۔ ان سب کے لیے ایک ناپسندیدہ منظر نامے میں رنگ بھرنے کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔ ڈیپ اسٹیٹ سیاستدانوں کو جتنا بھی برا سمجھے اس نکتہ پر یکسو ہے کہ کپتان، حکومت کرنے کے لیے ان فٹ ہے اور اس یہ نقص دور نہیں کیا جاسکتا ”میری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی“۔ اسی لیے اب سیاسی جماعتیں بھی پی ٹی آئی سے مذاکرات کرنے پر تیار نہیں۔ یہی سمجھا جارہا ہے کہ احتجاجی مہم جوئی کی کامیابی کے امکانات مدھم دیکھ کر میز پر آنے کی بات کی جارہی ہے تاکہ رہائی حاصل کرکے پھر سے اودھم مچایا جاسکے۔ اسٹیبلشمنٹ ہی نہیں حکومتی اتحاد میں شامل جماعتیں بھی عمران خان پر اعتبار کرنے کے لیے تیار نہیں۔ بلوچستان میں چھ جماعتوں کا اپوزیشن اتحاد بن چکا جس میں پی ٹی آئی شامل نہیں۔ مولانا فضل الرحمن کی اسٹیبلشمنٹ سے لاکھ ناراضی سہی لیکن اس بات کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں کہ وہ پی ٹی آئی اور اسکے سرپرستوں کے مقاصد کے لیے اپنی سٹریٹ پاور کو میدان میں جھونکیں۔

مزیدخبریں