(روزینہ علی)اسلام آباد ہائیکورٹ میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے سوشل میڈیا پر گرفتار ملزمان کی تصاویر جاری کرنے کے خلاف درخواست پر سماعت ،اسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاقی حکومت، اسلام آباد پولیس اور ایف آئی اے کو نوٹسسز، دو ہفتوں تک جواب طلب کرلیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے کیس کی سماعت کی ،درخواست گزار شاہ زین خان مندوخیل ایڈوکیٹ عدالت کے سامنے پیش ہوئے ۔
درخواستگزار نے موقف اختیار کیا ہے کہ پولیس اور ایف آئی اے کی جانب سے عادتاً گرفتار ملزمان کی تصاویر سوشل میڈیا پر جاری کی جاتی ہیں۔
گرفتار افراد محض ملزمان ہوتے ہیں، سزا یافتہ مجرم نہیں، قانون نافذ کرنے والوں کا یہ اقدام آئین پاکستان میں درج بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے، سوشل میڈیا پر گرفتار ملزمان کی تصاویر جاری کرنے سے شناخت پریڈ کا عمل بھی غیر موثر ہو جاتا ہے۔
ضرورپڑھیں:سائفر کیس: چیئرمین پی ٹی آئی کے جوڈیشل ریمانڈ میں 14دن کی توسیع
درخواست گزار نے کہا ہے کہ فریقین کی جانب سے کم عمر ملزمان کی بھی تصاویر سوشل میڈیا پر جاری کی گئیں، گرفتار کم سن ملزمان کی تصاویر سوشل میڈیا پر جاری کرنے سے بچوں کے ذہن پر برا اثر پڑتا ہے،سوشل میڈیا پر تصاویر جاری ہونے سے ملزمان کے فیئر ٹرائل کا حق بھی متاثر ہوتا ہے،عدالت گرفتار ملزمان کی تصاویر کو سوشل میڈیا پر جاری کرنے کو آئین کے منافی قرار دے۔
درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ عدالت فریقین کو اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے تمام گرفتار ملزمان کی تصاویر کو ہٹانے کا حکم دے،عدالت فریقین کو آئندہ گرفتار ملزمان کی تصاویر سوشل میڈیا پر جاری نہ کرنے کا حکم دے، عدالت نے کیس کی سماعت اکتوبر کے پہلے ہفتے تک ملتوی کردی۔