نیشنل سکیورٹی کونسل اعلامیے میں سازش کا لفظ شامل نہیں ۔ڈی جی آئی ایس پی آر

Apr 14, 2022 | 15:29:PM

(24 نیوز)ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار نے کہا ہے کہ قومی سلامتی کمیٹی کے اعلامیے میں سازش کا کوئی ذکر نہیں،   پاک فوج کو سیاست میں مت گھسیٹیں ، یہ سازش نہ پہلے کبھی کامیاب ہوئی تھی اور نہ اب ہوگی۔

ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ دو روز قبل آرمی چیف کی زیر صدارت فارمیشن کانفرنس ہوئی جس میں پاک فوج کی پیشہ ورانہ سرگرمیوں پر انہیں بریفنگ دی گئی، سال کے پہلے تین ماہ کے دوران 128 دہشت گردوں کو ہلاک کیا گیا، اس دوران کئی جوان شہید ہوئے، پوری قوم بہادر سپوتوں کو خراج تحسین پیش کرتی ہے، دہشت گردی کے خلاف جنگ آخری دہشت گرد کے خاتمے تک جاری رہے گی۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ پاک فوج نے خط کے معاملے پر اپنا موقف قومی سلامتی کمیٹی میں پیش کیا، ہماری خفیہ ایجنسیاں تمام خطرات کے خلاف چوکنا ہیں اور خفیہ ایجنسیوں سمیت تمام ادارے بھرپور طریقے سے کام کررہے ہیں، خود دیکھ لیں کہ قومی سلامتی کے اعلامیے میں سازش کا لفظ نہیں ہے، ہم پاکستان کے خلاف کسی بھی قسم کی سازش کو کامیاب ہونے نہیں دیں گے۔

بابر افتخار نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کا مطالبہ تھا کہ پاک فوج کا سیاست میں عمل دخل نہیں ہونا چاہیے اور اس بات کو عملی جامہ پہنایا گیا ہے، پاک فوج کا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں  ہے پاک فوج اپنا آئینی اور قانونی کردار ادا کرتی ہے اور کرتی رہے گی۔

اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے عمران خان کو تین آپشنز دیے جانے کے سوال پر انہوں نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ نے گزشتہ حکومت کو کوئی آپشنز نہیں دیے، نو اپریل کی رات کے حوالے سے بی بی سی کی خبر سراسر جھوٹ پر مبنی اسٹوری ہے۔

انہوں نے کہا کہ تمام سیاسی قیادت نے ہر دور میں ایٹمی پروگرام کے لیے کردار ادا کیا، ہمارے ایٹمی پروگرام کو کوئی خطرہ نہیں، ایٹمی پروگرام کو سیاسی مباحثوں کا حصہ نہیں بنایا جاسکتا کیوں کہ ایٹمی اثاثے کسی سیاسی قیادت سے منسلک نہیں، ایٹمی اثاثوں کی بات کرتے ہوئے محتاط رہنا چاہیے۔

دھمکی آمیز مراسلے پر انہوں نے کہا کہ اگر کوئی دھمکی موصول ہوئی تو وہ وزارت داخلہ دیکھتی ہے، احتجاجی مراسلے صرف سازش پر نہیں اور بھی کئی معاملات میں جاری کیے جاتے ہیں، یہ سفارتی طریقہ کار ہے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ منفی مہم میں صرف فوج نہیں سب زد میں آرہے ہیں، آرمی چیف ایک ادارے کے سربراہ ہیں اور یہ ادارہ حکومت کے ماتحت ہے اگر سیاسی تقاریر میں آرمی چیف کا نام لیا گیا ہے تو یہ پوچھنا کس کا کام ہے؟

میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ پراپیگنڈے کے ذریعے اداروں کے خلاف نفرت پھیلائی جارہی ہے، ڈس انفارمیشن سے فوج کو نشانہ بنایا جارہا ہے، پراپیگنڈ ے سے محفوظ رہنے کے لیے ہمیں مربوط اقدامات کرنے پڑیں گے، عوام کی حمایت فو ج کے لیے ضروری ہے، آرمی چیف جس طرف دیکھتے ہیں 7 لاکھ افواج اسی جانب دیکھتی ہیں، فوج اتحاد کے تحت کام کرتی ہے، فو ج کے خلاف منفی مہم کا حصہ نہ بنا جائے۔

میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ عوام کی حمایت مسلح افواج کی طاقت کا سرچشمہ ہے، افواہوں کی بنیاد پر پاک فوج کی کردار کشی کسی طور قبول نہیں، فوج کی تعمیری تنقید مناسب ہے لیکن بے بنیاد کردار کشی کسی بھی صورت قابل قبول نہیں، پاک فوج کے خلاف منظم مہم چلائی جارہی ہے،عوام اور فوج کے درمیان خلیج پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، عوام اور سیاسی پارٹیوں سے درخواست ہے کہ فوج کو سیاست میں نہ گھسیٹیں، یہ سازش نہ پہلے کبھی کامیاب ہوئی تھی اور نہ اب ہوگی۔

میجر جنرل بابر افتخار نے اس بات کی تردید کی کہ امریکا نے پاکستان سے فوجی اڈے مانگے، انہوں نے کہا کہ امریکا نے فوجی اڈے مانگے اور نہ ہم نے دیے، اگر مانگتے بھی تو پاک فوج کا وہی موقف ہوتا جو وزیراعظم کا تھا۔

انہوں نے کہا کہ آرمی چیف نے نہ توسیع مانگی اور نہ قبول کریں گے، وہ واضح کرچکے ہیں کہ فوج کا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں، آرمی چیف رواں سال 29 نومبر کو ریٹائرڈ ہوجائیں گے، آرمی چیف نہ ہی مدت میں توسیع طلب کررہے ہیں اور نہ ہی قبول کریں گے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ فوج کے خلاف سوشل میڈیا پر چلنے والی مہم کے خلاف متعلقہ ادارے کام کر رہے ہیں، فوج کے بارے میں غیر مناسب زبان کے استعمال سے گریز کرنا چاہیے، کسی کے جھوٹا ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ بغیر تصدیق بات کو آگے پہنچادے۔

یہ بھی پڑھیں:پی ٹی آئی کے ملک گیر جلسے، ن لیگ کی حکمت عملی تیار ۔بڑا فیصلہ کرلیا

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی بقا جمہوریت میں ہے، عدالتیں فوج کے ماتحت نہیں وہ اپنے فیصلوں میں آزاد ہیں، پارلیمنٹ،سپریم کورٹ اور مسلح افواج جمہوریت کے محافظ ہیں، ملک میں اب کبھی مارشل لا نہیں آئے گا۔

سیاسی جماعتوں کو این آر او دینے کے سوال پر بابر افتخار نے کہا کہ فوج کسی کو این آر او دینے کی پوزیشن میں نہیں، فوج کون ہوتی ہے کسی کو این آر او دینے والی؟ وہ اپنا کام کررہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں:وزیراعظم کے دورہ کراچی کےموقع پر خاتون اول کہاں تھیں؟

مزیدخبریں