سائفر کیس کی سماعت ان کیمرا ہوگی، پراسیکیوشن کی درخواست منظور
Stay tuned with 24 News HD Android App
(24نیوز) سائفر ایکٹ کی خصوصی عدالت نے سائفر کیس کی ان کیمرا سماعت کی درخواست منظور کرلی۔
راولپنڈی کی خصوصی عدالت کے جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے پراسیکیوشن کی درخواست پر سماعت کی جسے پراسیکیوشن نے سیکشن 14 اے کے تحت گزشتہ روز دائر کیا تھا,دوران سماعت ایف آئی اے کے پراسیکیوٹر رضوان عباسی نے اپنے دلائل میں کہا کہ آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی سیکشن 14 کے تحت سماعت ان کیمرا ہونی چاہیے، حالات و واقعات کے تناظر میں خفیہ ٹرائل کا کہا گیا ہے اور سائفرسیکریٹ تھا تو سماعت بھی ان کیمرا ہونی چاہیے۔
رضوان عباسی نے کہا کہ چارج فریم ہو چکا شہادتیں ریکارڈ ہونا ہیں اور شہادتیں ریکارڈ کرتے وقت سکریسی کو مدنظر رکھا جائے, اس دوران شاہ محمود قریشی کے وکیل علی بخاری نے کہا کہ ہم نے جیل ٹرائل کا نوٹیفکیشن ہائیکورٹ میں چیلنج کیا تھا، ہائیکورٹ نے نوٹیفکیشن کالعدم قرار دے کر اوپن ٹرائل کا حکم دیا اب ہمیں میڈیا سے علم ہوا کہ فرد جرم عائد کر دی گئی ہے۔
اس پر جج نے علی بخاری سے پوچھا کہ آپ سماعت کے دوران کہاں تھے؟ سب کے سامنے چارج فریم ہوا تھا، فرد جرم عدالت میں پڑھ کر سنائی گئی۔
بعد ازاں عدالت نے پراسیکیوشن کی استدعا منظور کرتے ہوئے سائفر کیس کی ان کیمرا سماعت کی درخواست منظور کرلی،عدالت نے کہا کہ صرف ملزمان کے فیملی ممبران کو دوران سماعت کمرہ عدالت میں رسائی دی جائے گی۔
دوسری جانب اسلام آباد ہائیکورٹ نے سابق چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کیخلاف سائفر ٹرائل فوری روکنے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے حکم امتناع کی درخواست پر 20 دسمبر کیلئے نوٹس جاری کر دیا،اسلام آباد ہائیکورٹ نے ایف آئی اے کو 20 دسمبر تک نوٹس جاری کر دیا،جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے جیل ٹرائل کیلئے قانونی پراسس پورا نا ہونے کے خلاف سابق چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست پر سماعت کی،وکیل سکندر ذوالقرنین سلیم نے دلائل میں کہا کہ 4 دسمبر کے ٹرائل کورٹ کے آرڈر کو چیلنج کیا گیا ہے۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہی یہ آرڈر میں کیا کہہ رہے ہیں، وفاقی حکومت کا جیل ٹرائل کا نوٹیفکیشن کہاں ہے؟
وکیل سابق چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ مجھے نہیں پتہ، جس پر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ آپ کو کیوں نہیں پتہ جیل ٹرائل ہو رہا ہے۔ وکیل نے کہا کہ یہ حکومت کا کام ہے، جج کا نہیں کہ وہ کورٹ کے لیے جگہ کا انتخاب کرے،جسٹس میاں گل حسن اورنگ زیب نے ریمارکس دیئے کہ یہ جج کا ہی اختیار ہے، جج ٹرائل کے لیے جیل کا انتخاب کر سکتا ہے مگر وہ اوپن کورٹ ہونی چاہیے۔
سابق چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل نے استدعا کی کہ عدالت آئندہ سماعت تک ٹرائل روک دے، جس پر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ رپورٹ آ جائے پھر دیکھتے ہیں۔
یادرہے کہ سابق چیئرمین پی ٹی آئی نے جیل ٹرائل کے پراسس نا ہونے کو چیلنج کر رکھا ہے۔