نام نہاد بھارتی انصاف کا مکروہ چہرہ منظر عام پر آ گیا

Feb 14, 2023 | 12:36:PM
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(ویب ڈیسک) بھارت کی ریاست اتر پردیش کے شہر  ایودھیا میں کئی دہائیوں سے جاری متنازع بابری مسجد کیس کا فیصلہ سنانے والے ججز پر مودی سرکار کی جانب سے نوازشات کی بارش کی جا رہی ہے۔

 بھارتی انصاف کا مکروہ چہرہ ایک بار پھر منظر عام پر آگیا ہے۔دہلی میں انتہا پسند مودی سرکار کی جانب سے  بابری مسجد کیس کا فیصلہ سنانے والے پانچ میں سے تین ججوں کو ریٹائرمنٹ پر سرکاری اعزازات سے نواز دیا گیا ہے۔ 

انتہا پسند مودی سرکاری نے بابری مسجد کیس کا فیصلہ سنانے والے ججوں کو سرکاری اعزازات کے ساتھ ساتھ سرکاری عہدوں پر بھی فائز کر دیا ہے۔ کچھ روز قبل ریٹائر ہونے والے بھارتی سپریم کورٹ کے جج عبدالنظیر کو آندھرا پردیش کا گورنر نامزد کیا گیاہے  جبکہ 2020 میں سابق بھارتی چیف جسٹس رانجن گوگوئی کو چیئرمین خارجہ امور بنایا گیا  تھا۔ 

مودی سرکار کی جانب سے سابق چیف جسٹس رانجن گوگوئی کو  اطلاعات اور آئی ٹی کیمٹی کا چیئرمین بھی بنایا  گیا تھا جبکہ جسٹس (ر) اشوک بھوسان کو نومبر 2021 میں نیشل ایپلٹ ٹربیونل کا سربراہ مقرر کیا گیا تھا۔

واضح رہے کہ نومبر 2019 میں بھارتی سپریم کورٹ کی جانب سے بابری مسجد کو شہید کرنے کے واقعے کو درست قرار دیا  گیا تھا اور مسجد کی زمین پر رام مندر بنانے کا حکم بھی دیا گیا تھا۔ اس متنازع فیصلہ دینے والے 3 ججوں پر مودی سرکار کی نوازشات فیصلے کی غیر جانبداری اور درستگی پر سوال اٹھاتی ہیں۔ 

مزید پڑھیں: بجلی اور پٹرول کے بعد گیس کی قیمتوں میں بھی بڑا اضافہ

خیال رہے کہ 6 دسمبر 1992 کو بابری مسجد کو انتہا پسند ہندوؤں نے شہید کر دیا تھا اور اس کے بعد اس قطعہ زمین کی ملکیت کے حوالے سے مقدمہ الہ آباد ہائیکورٹ میں درج کروایا گیا تھا جس پر عدالت نے فیصلہ سنایا تھا کہ ایودھیا کی اس دو اعشاریہ 77 ایکڑ زمین کو تین حصوں میں تقسیم کیا جائے۔ فیصلے کے مطابق ایک تہائی  زمین رام لیلا مندر کے پاس جائے گی اور ایک تہائی سنّی وقف بورڈ کو جائے گی جبکہ باقی بچ جانے والی  ایک تہائی زمین نرموہی اکھاڑے کو دے دی جائے گی۔ لیکن بعد میں رنجن گوگوئی کی سربراہی میں بھارتی سپریم کورٹ نے بابری مسجد کو شہید کرنے کے حق میں فیصلہ سنا دیا اور ساری زمین رام مندر کو دینے کا حکم دے دیا تھا۔ 

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جہاں عالمی میڈیا پہلے ہی بھارت میں بڑھتی شدت پسندی پر اضطراب کا شکار ہےکیا وہاں  انسانی حقوق کی عالمی نتظیمیں بابری مسجد کے متنازع فیصلے کے خلاف آواز اٹھائیں گی؟ عالمی انصاف کے ادارے بھارت میں جانبدارانا انصاف پر کیا ردِ عمل دیں گے؟