(24 نیوز)اسلام آباد ہائیکورٹ نے ثاقب نثار کی مبینہ آڈیو کا فرانزک کرانے کیلئے معاونت طلب کرلی چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ثاقب نثار کی مبینہ آڈیو کا فرانزک کرانے کیلئے اٹارنی جنرل اور پاکستان بار کونسل مستند ترین فرانزک فرمز کے نام فراہم کریں۔
درخواست گزار صلاح الدین نے عدالت کو بتایا کہ امریکہ کی فرانزک فرم کی رپورٹ میں آڈیو کو ٹھیک قرار دیا گیا۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ درخواست گزار صلاح الدین آڈیو کی کاپی عدالت اور اٹارنی جنرل کو فراہم کریں
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اس رپورٹ میں یہ نہیں لکھا ہوا کہ یہ کس آڈیو سے متعلق ہے، چیف جسٹس نےاستفسار کیا کہ آپ نے یہ رپورٹ کہاں سے حاصل کی۔جس کے جواب میں صدر سندھ ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن صلاح الدین نے جواب دیا کہ میں یہ آڈیو انٹرنیٹ سےحاصل کی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اس رپورٹ میں نہیں لکھا ہوا کہ خصوصی طور پر اُس آڈیو سے متعلق ہے،شاید یہ اسی آڈیو کی رپورٹ ہو لیکن عدالت نے احتیاط سے کام لینا ہے۔پہلے دیکھنا ہے کہ کیا اس طرح کی کوئی آڈیو اصل میں موجود بھی ہے یا نہیں۔اگر اصل آڈیو موجود ہے تو ہم دنیا کے بہترین ایکسپرٹس سے فرانزک کرائیں گے۔
یہ بھی پڑھیں:اومیکرون کا خدشہ۔۔ تعلیمی ادارے بند
چیف جسٹس نے کہا کہ ابھی جس فرانزک ایجنسی کی رپورٹ آپ بتا رہے ہیں اس رپورٹ پر انحصار نہیں کیا جا سکتا۔
پاکستان بار کونسل اور اٹارنی جنرل اس عدالت کو بہترین فرانزک ایجنسی کا بتائیں، آپکو وقت دیتے ہیں اس پر سوچ کر عدالت کو آگاہ کریں۔اس آڈیو کلپ کی کاپی تمام چینلز کے پاس ہے جنہوں نے یہ آڈیو چلانے کا رسک لیا۔کل کو زیر التوا کیسز میں مزید پٹیشنز آ جائیں گی کہ یہ آڈیو ہے، اس کی انکوائری کرائیں۔صلاح الدین ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ چینلز نے اس کو سنجیدہ لے کر توہین عدالت کی کارروائی کے خدشے کے باوجود یہ آڈیو کلپ چلائے۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اگر اس آڈیو کلپ کا فرانزک کرائیں تو اس کا خرچہ کون برداشت کرے گا؟ صلاح الدین ایڈووکیٹ نے کہا کہ وزارت قانون اس کا خرچہ اٹھا سکتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:تھر کا روایتی میلہ شروع
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے جواب میں کہا کہ ٹیکس پیئر کر پیسہ اس پر کیوں خرچ ہو؟چیف جسٹس نے مزید کہا کہ تاریخ واقعی تلخ ہے، ججز نے ماضی میں چیزوں کو تسلیم کیا، یہاں معاملہ مختلف ہے۔آپ کسی بھی مستند فرانزک ایجنسی کا نام تجویز کریں جس سے اس آڈیو کلپ کا فرانزک کرایا جائے۔
صلاح الدین ایڈووکیٹ نے کہا کہ اٹارنی جنرل نے مجھے کہا کہ میں کسی کی پراکسی ہوں، میں کوئی نام تجویز نہیں کروں گا،آپ اس حوالے سے اٹارنی جنرل سے ہی کسی مستند فرانزک ایجنسی کا نام معلوم کر لیں۔انہوں نے کہا کہ ججز میرٹ پر فیصلہ دیتے ہیں، پھر بھی ایک چیف جسٹس کی انکو کالز کی انکوائری تو ہونی چاہیے۔