بیرونی مراسلے کا مکمل متن عدالت کو نہیں دکھایا گیا، تحریک عدم اعتماد مسترد کرنے کا فیصلہ غیر آئینی قرار
Stay tuned with 24 News HD Android App
(24 نیوز) سپریم کورٹ آف پاکستان نے ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کیخلاف از خود نوٹس کا تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا ہے جس کے مطابق ڈپٹی سپیکر کی تحریک عدم اعتماد مسترد کرنے کے فیصلے کو غیر آئینی قرار دیا گیا ہے۔
چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے 86 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ تحریر کیا، فیصلے کا آغاز سورہ الشعراءسے کیا گیا ہے۔سپریم کورٹ کے اکثریتی فیصلہ میں قرار دیا گیا کہ ڈپٹی سپیکر کی تحریک عدم اعتماد مسترد کرنے کا فیصلہ غیر آئینی ہے، وزیر اعظم کا اسمبلیاں تحلیل کرنے کا حکم غیر قانونی قرار دیتے ہوئے کالعدم قرار دیا جاتا ہے، مبینہ بیرونی مراسلے کا مکمل متن عدالت کو نہیں دکھایا گیا، مراسلے کا کچھ حصہ بطور دلائل سپریم کورٹ کے سامنے رکھا گیا۔
فیصلہ میں یہ بھی قرار دیا گیا کہ تحریک انصاف کے وکیل کے مطابق مراسلے کے تحت حکومت گرانے کی دھمکی دی گئی، مبینہ بیرونی مراسلہ ایک خفیہ سفارتی دستاویز ہے، سفارتی تعلقات کے پیش نظر عدالت مراسلے سے متعلق کوئی حکم نہیں دے سکتی، قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں پاکستان کے اندرونی معاملات میں بیرونی مداخلت کو تسلیم کیا گیا، قومی سلامتی اجلاس کے اعلامیے میں واضح تھا کہ اپوزیشن جماعتوں نے تحریک عدم اعتماد میں کوئی بیرونی سازش نہیں کی، بیرونی سازش کیخلاف کوئی انکوائری یا تحقیق نہیں کرائی گئی۔
سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا کہ عدالتیں مصدقہ حقائق کی بنیاد پر فیصلہ کرتی ہیں نہ کہ قیاس آرائیوں پر، سفارتی مراسلے سے متعلق فیصلہ کرنا ایگزیکٹیو کا کام ہے، چیف جسٹس پاکستان کے گھر پر ہونے والے اجلاس میں 12 ججز نے از خود نوٹس کی سفارش کی، سپریم کورٹ نے آئین کو مقدم رکھنے اور اسکے تحفظ کیلئے سپیکر رولنگ پر از خود نوٹس لیا۔
فیصلہ کے مطابق ڈپٹی سپیکر کے غیر آئینی اقدام کی وجہ سے سپریم کورٹ متحرک ہوئی، ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کی وجہ سے وزیراعظم ایڈوائس اور صدر مملکت نے اسمبلی توڑی، ڈپٹی سپیکر رولنگ، وزیراعظم ایڈوائس اور صدر کے اقدامات کی وجہ سے اپوزیشن اور عوام کے بنیادی آئینی حقوق متاثر ہوئے، از خود نوٹس کی کارروائی کے دوران سائفر فریقین نے دلائل دیئے، سائفر عدالت کو دکھایا نہیں گیا، صرف سائفر کے اجزا عدالت کو بتائے گئے۔
سپریم کورٹ کے فیصلہ کے مطابق بیرونی مداخلت سے متعلق مبینہ مراسلہ 7 مارچ کو موصول ہوا، سابقہ حکومت نے نہ تو مراسلے کی تحقیقات کروائیں نہ یہ بتایا کہ کس نے بیرونی سازش کی، 31 مارچ تک حکومت نے مراسلے کی تحقیقات کرائیں نہ اپوزیشن کے سامنے حقائق رکھے، تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کے دن وزیر قانون نے پہلی مرتبہ بیرونی سازش سے متعلق ڈپٹی سپیکر کو حکم دینے کی استدعا کی، بیرونی سازش کے نامکمل، ناکافی اور غیر مصدقہ حقائق سپیکر کو پیش کیے گئے، عدالت کے سامنے بیرونی سازش سے متعلق ثبوتوں میں سے صرف ڈپٹی سپیکر کا بیان ہے۔
اکثریتی فیصلہ میں یہ بھی کہا گیا کہ ڈپٹی سپیکر کی رولنگ میں نہیں بتایا گیا کہ مراسلے کے مطابق وزیر اعظم کو ہٹانے کیلئے اپوزیشن میں سے کسی ممبر نے بیرون ملک سے رابطہ کیا، ڈپٹی سپیکر کی تفصیلی رولنگ میں نہیں بتایا گیا کہ مبینہ مراسلے کے مطابق حکومت گرانے میں کون شامل ہے، 2 اپریل کو اس وقت کے وزیر قانون نے بیرونی مداخلت سے متعلق کمیشن قائم کرنے کا کہا، انکوائری کمیشن کا قیام اس بات کا غماز ہے کہ سابقہ حکومت کو بیرونی مداخلت کا شک تھا، ڈپٹی سپیکر نے قومی سلامتی کو جواز بنا کر تحریک عدم اعتماد مسترد کر دی، عدالت بیرونی مداخلت سے متعلق دلیل سے مطمئن نہیں، قومی سلامتی کے نام پر ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کو تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔
سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلہ کے مطابق ڈپٹی سپیکر کی قومی سلامتی سے متعلق رولنگ کو آئینی تحفظ حاصل نہیں، آئین کے آرٹیکل 95 کی شق 2 کے تحت سپیکر تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کرانے کا پابند ہے، آرٹیکل 69 کی شق ایک سے واضح ہے کہ پارلیمانی کارروائی کو عدالت سے تحفظ حاصل ہے، پارلیمانی کارروائی میں اگر آئین کی خلاف ورزی ہو تو اس پر کوئی تحفظ حاصل نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پیٹرول کی قیمت میں کمی، مفتاح اسماعیل نے خوشخبری سنادی