(احتشام کیانی) اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیئرمین پی ٹی آئی کیخلاف توشہ خانہ فوجداری کارروائی کے کیس میں سیشن عدالت کی کارروائی روکنے اور توشہ خانہ کیس دوسری عدالت منتقلی کی درخواست پر سماعت ہوئی۔
دوران سماعت معاون خصوصی عطاء تارڑ اور ملک احمد خان کمرہ عدالت میں موجود رہے۔
چیئرمین پی ٹی آئی کی لیگل ٹیم کی سربراہی خواجہ حارث نے کی جبکہ الیکشن کمیشن کی لیگل ٹیم امجد پرویز کی سربراہی میں عدالت میں پیش ہوئی۔
الیکشن کمیشن نے چیئرمین تحریک انصاف کیخلاف فوجداری کارروائی کیلئے درخواست دائر کر رکھی ہے جبکہ سیشن عدالت نے چیئرمین تحریک انصاف پر فرد جرم عائد کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
چیئرمین تحریک انصاف نے فرد جرم کا فیصلہ ہائیکورٹ میں چیلنج کیا تھا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے توشہ خانہ کیس کی کارروائی پر حکم امتناعی جاری کر رکھا ہے۔
یہ بھی پڑھیے: 9 مئی کے واقعات میں ملوث نامعلوم افراد کون تھے؟
عدالت نے آج فریقین سے درخواستوں پر دلائل طلب کیے۔
چیئرمین تحریک انصاف کی توشہ خانہ کیس میں فرد جرم کیخلاف درخواست پر سماعت اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے کی۔
دوران سماعت چئیرمین پی ٹی آئی کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ فرد جرم عائد کرنے والے جج ہمارے اعتراضات کو ریکارڈ پر نہیں لائے، عدالت نےکہا کہ اِن اعتراضات کو شہادت ریکارڈ کرتے وقت دیکھیں گے۔
خواجہ حارث نے دلائل دیے کہ قانون کے مطابق ڈسٹرکٹ الیکشن کمشنر شکایت دائرکرسکتا ہے، کیس دائر کرتے وقت شکایت کنندہ ڈپٹی الیکشن کمشنر تھے، شکایت کنندہ نے حلفیہ تصدیق بھی کی کہ وہ ڈپٹی الیکشن کمشنر ہیں۔
وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ شکایت کنندہ کے دو جگہوں پر دستخط مختلف ہیں، یہ جعلسازی واضح طور پر نظر آرہی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ الیکشن کمیشن نے ایک فیصلہ دیا اور اس کی بنیاد پر فوجداری کمپلینٹ دائر کی گئی۔
جس پر چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ فوجداری کارروائی میں الیکشن کمیشن نے شواہد کے ساتھ اپنا کیس ثابت کرنا ہے، سول کارروائی اپنی جگہ لیکن کرمنل میں تو سزا ہونی ہوتی ہے، مریم نواز کے کیس میں بھی ہم نے اس نکتے کو طے کیا تھا۔
عدالت نے استفسار کیا کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ موجود نہ ہو تو کیا پھر بھی فوجداری کارروائی ہوسکتی ہے؟ کیا پھر بھی کرپشن اور کرپٹ پریکٹسز کی کمپلینٹ دائر ہوسکتی ہے؟
جس پر وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ پاکستان کا کوئی بھی شہری فوجداری کارروائی کیلئے شکایت دائر کرسکتا ہے۔
چئیرمین پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا کہ سیکرٹری الیکشن کمیشن کے پاس فوجداری کارروائی کیلئے اجازت دینے کا اختیار نہیں، سیکرٹری الیکشن کمیشن نے واضح لکھا کہ میں بطور سیکرٹری کمیشن اجازت دے رہا ہوں، سیکرٹری الیکشن کمیشن نے یہ نہیں لکھا کہ کمیشن کی طرف سے اجازت دے رہا ہوں۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ اگر سیکرٹری الیکشن کمیشن کی بجائے کسی ممبر نے وہ خط لکھا ہوتا تو پھر درست تھا؟
جس پر خواجہ حارث نے جواب دیا کہ جی بالکل، اتھارٹی الیکشن کمیشن ہے۔
بعد ازاں، اسلام آباد ہائیکورٹ توشہ خانہ فوجداری کارروائی سے متعلق ٹرائل کورٹ کو کارروائی سے روکنے کے حکم میں کل تک کی توسیع کردی۔
چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل کل بھی دلائل جاری رکھیں گے۔
دوسری جانب اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس طارق محمود جہانگیری نے چیئرمین تحریک انصاف کی سات مقدمات میں حاضری سے استثنیٰ کی درخواستوں پر اعتراضات کے ساتھ سماعت کی۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے چیئرمین تحریک انصاف کی درخواست واپس لینے کی بنیاد پر نمٹا دی۔
اس حوالے سے وکیل آمنہ علی نے کہا کہ درخواست گزار سات مقدمات میں شامل تفتیش ہو چکے ہیں اور درخواست گزار مذکورہ مقدمات میں متعلقہ ٹرائل کورٹ میں بھی پیش ہو چکے ہیں۔