(24 نیوز)دوراندیشی آپ کو بڑی مصیبت سے بچا سکتی ہے۔سیاست میں بھی دوراندیشی سے کام لینے میں ہی سمجھداری ہے۔اور لگ رہا ہے وزیر اعظم شہباز شریف بھی اپنی حکومت پر خطرے کے منڈلاتے بادل دیکھ رہے ہیں ۔وہ سمجھ رہے ہیں کہ آنے والے وقتوں میں اُن کی حکومت کو شدید قسم کے خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔اتحادیوں کے بدلتے تیور، تحریک انصاف سے جنگ اور معیشت سے متعلق مشکل فیصلے حکومت کو خطرات میں گھیرے ہوئے ہیں ۔
پروگرام’10تک‘کے میزبان ریحان طارق نے کہا ہے کہ وزیر اعظم اِنہی خطرات کو بھانپتے ہوئے مولانا فضل الرحمان کے در پرجا چکے ہیں تاکہ حکومت کیلئے نئی مشکل نہ کھڑی ہوسکے مولانا فضل الرحمان بھی حکومت سے الیکشن کے بعد خفا خفا نظر آرہے ہیں کیونکہ وہ اِس پارلیمنٹ کو دھاندلی کی پیدوار کہہ چکے ہیں۔اور پی ٹی آئی یہ کوشش کر رہی ہے کہ وہ حکومت کیخلاف تحریک میں مولانا فضل الرحمان کو ساتھ ملا لے اور مولانا کا جھکاؤ بھی پی ٹی آئی کی طرف بڑھتا نظر آرہا ہے۔اور ظاہر ہے اگر مولانا صاحب کی جماعت تحریک انصاف کے ساتھ مل جائے تو حکومت کیلئے مشکلات کھڑی ہوسکتی ہیں ۔اور وزیراعظم یہ بات اچھے سے جانتے ہیں۔اِس لیئے وہ مولانا فضل الرحمان کے ساتھ ملاقات کرکے جمی برف کو پگھلانے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ اب سوال یہ ہے کہ شہباز شریف بذات خود اِتنے متحرک کیوں ہیں ؟کیا شہباز شریف نے بھی دیوار پر لکھا پڑھ لیا ہے کہ اِن کی حکومت چند مہینوں کی مہمان رہ گئی ہے۔ پیپلزپارٹی کے رہنما تو پہلے ہی یہ پیش گوئی کرچکے ہیں کہ یہ حکومت تین ماہ کی مہمان ہے ۔
اب ایسے میں جب ایک طرف اتحادی جماعت پیپلزپارٹی حکومت کے جلد خاتمے کی باتیں کر رہی ہے تو دوسری جانب وزیر اعظم کا متحرک ہونا اور اتحادیوں سے میل ملاقتیں کرنا یہ پتہ دے رہا ہے کہ شہباز شریف کسی خطرے کو بھانپ چکے ہیں ۔ظاہر ہے حکومت کو صرف مولانا فضل الرحمان سے ہی پریشانی نہیں ہے بلکہ حکومت کو درپیش خطرات میں سب سے بڑا خطرہ یہ بھی ہے کہ وفاقی بجٹ جس پر نت نئے ٹیکسز لکی بھرمار کی گئی ہے۔تاجر برادری بھی بجٹ سے زیادہ خوش نظر نہیں آتی۔اور اُس کو آئی ایم ایف بجٹ قرار دے رہی ہے ۔جس کی وجہ سے حکومت مزید تنقید کی زد میں آرہی ہے۔معیشت کو درست کرنے کا پریشر حکومت پر علیحدہ ہے۔غیر مقبول فیصلے کرنا معیشت کیلئے ناگزیر ہے اور حکومت کے پاس اِن فیصلوں پر عملدرآمد کے کوئی اور چارہ نہیں ہے ۔ مسلم لیگ ن کو دوسرا بڑا خطرہ اپنے اتحادیوں کے بدلتے رویے سے ہے ۔ایک جانب پیپلزپارٹی کے بدلتے تیور بھی ن لیگ کو خوفزدہ کر رہے ہیں ۔کل بجٹ میں پیپلزپارٹی کلابازیاں کھاتے نظر آئی۔ایک طرف بجٹ اجلاس میں بیٹھنے سے انکار اور دوسری جانب اقرار نے ن لیگ کی آنکھیں کھول دی ہے ۔اِس سے پہلے شہباز شریف صدر مملکت آصف علی زرداری سے بھی مل چکے ہیں تاکہ وہ اپنے اتحادیوں کو آن بورڈ رکھ سکیں ۔
ایم کیو ایم بھی اپنی اتحادی جماعت کیخلاف احتجاج کی باتیں کر رہی ہے۔کہنے کا مقصد صرف اِتنا ہے کہ وزیراعظم کو کئی محاذوں کا سامنا ہے۔اِس لیئے حکومت تحریک انصاف سے بھی مذاکرات پر لچک دکھا رہی ہے ۔اور لیگی رہنما یہ کہتے نظر آرہے ہیں کہ وہ مولانا اور محمود خان اچکزئی سے بات کرنے کو تیار ہیں بلکہ خود اُن کے پاس جانے کو تیار ہیں ۔اب تحریک انصاف کے رہنما بیرسٹر علی گوہر تو کہتے ہیں کہ مولانا صاحب کے ساتھ اِن کی جماعت کا بڑا جلسہ ہوسکتا ہے ۔اور شاید یہی وجہ ہے کہ حکومت اب مزاکرات کیلئے راستہ کھولنے کی بات کر رہی ہے۔اب ایک طرف ن لیگ کہتی ہے کہ کسی کو رہائی چاہئے یا پھر میڈیٹ کی واپسی تو اُس کا راستہ صرف اور صرف مذاکرات سے نکلے گا لیکن دوسری جانب پبلکس اکاؤنٹ کمیٹی کی چیئرمین شپ جو کہ اپوزیشن کا حق ہے اور قائمہ کمیٹیوں میں حصہ بھی ۔لیکن وہ ن لیگ دینے کو تیار نہیں ۔
مسلم لیگ ن جب اپوزیشن میں تھی تب وہ چیئرمین پی اے سی پر اپنا حق جتایا کرتی تھی۔اب ظاہر ہے مذاکرات کیلئے تحریک انصاف کی بھی کچھ مطالبے ہیں جنہیں حکومت کو مدنظر رکھنا ہوگا ورنہ تالی ایک ہاتھ سے تو نہیں بج سکتی۔ اب آج پی ٹی آئی اور اسحاق ڈار کے درمیان قائمہ کمیٹیوں کی تقسیم کے حوالے سے ملاقات بے نتیجہ ختم ہوگئی۔پی ٹی آئی کے وفد نے سینیٹ میں قائد ایوان اور ڈپٹی وزیراعظم اسحاق ڈار سے ملاقات کی جس میں شبلی فراز اور پارلیمانی لیڈر بیرسٹرعلی ظفر نے شرکت کی،پی ٹی آئی وفد اور اور قائد ایوان اسحاق ڈار کی قائمہ کمیٹیوں کی تقسیم پر بات چیت بے نتیجہ رہی ۔دوسری جانب قومی اسمبلی کی 40قائمہ کمیٹیاں تشکیل دےدی گئی ۔کمیٹی چیئرمین پی اے سی کا انتخاب خود کرے گی۔کمیٹی میں ن لیگ کے 7 پیپلز پارٹی 5 ایم کیو ایم جے یو آئی ایک، ایک رکن شامل,سنی اتحاد کونسل کے 6 جبکہ آزاد رکن عمر ایوب خان بھی کمیٹی میں شامل ، شیخ وقاص اکرم کا نام ہی شامل نہیں ۔مزید دیکھئے اس ویڈیو میں