ایک اور جج کا خط آگیا،چیف جسٹس کا ایکشن
Stay tuned with 24 News HD Android App
(24 نیوز)عدلیہ اور ایگزیکٹیو کی جنگ کا درجہ حرارت کم ہونے کی بجائے بڑھتا چلا جارہا ہے ۔پہلے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججز کے خط کا معاملہ سامنے آیا ۔اور اب ایک بار پھر یہ سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔اب کی بار انسداد دہشت گردی سرگودھا کی خصوصی عدالت کےجج نے حساس اداروں کی جانب سے مداخلت اور ہراساں کیےجانےکا انکشاف کیا ہے۔جس پر لاہور ہائی کورٹ نے فوری ایکشن لیا ہے۔چیف جسٹس کے اِس ایکشن کو اِس تناظر میں دیکھا جارہا ہے جہاں جوڈیشل کمیشن نے سپریم کورٹ میں تین ججز کی تعیناتی کے حوالے سے اپنے نام تجویز کیے جس کو کل پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں حتمی منظوری ملنی ہے ۔
پروگرام’10تک‘کے میزبان ریحان طارق نے کہا ہے کہ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کا نام بھی سپریم کورٹ میں بطور جج تقرری کیلئے دیا گیا ہے ۔جس کو اِس تناظر میں دیکھا جارہاہے کہ حکومتی حلقے چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ سے اِس لئے خوش نہیں تھی کیونکہ اُنہوں نے الیکشن ٹربیونل اور انسداد دہشتگردی میں ججز کی تعیناتی کرنے کا کہا اور حکومت نے ایسا نہیں ہونے دیا کیونکہ حکومت کی نظر میں ایسا کرنے کی صورت میں انسداد دہشتگردی کی عدالتوں اور الیکشن ٹربیونل سے تحریک انصاف کیلئے ایک ریلیف کا سلسلہ شروع ہوسکتا تھا۔اب واقفانِ حال کے مطابق اِن وجوہات کی بناء پر چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کو سپریم کورٹ میں ٹرانسفر کیا جارہا ہے۔اب کل پارلیمانی کمیٹی حکومت سپریم کورٹ میں ججز کی تعیناتی پر حتمی منظوری دے گی ۔
اور ایسے میں آج چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ ملک شہزاد احمد خان نے انسداد دہشتگردی عدالت کے باہر فائرنگ کے واقعے کے حوالے سے کیس کی سماعت کی۔آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور اور آر پی او سرگودھا عدالت میں پیش ہوئے۔آئی جی نے بتایا کہ عدالت کے باہر فائرنگ ہوئی، جج صاحب کے حکم پر ہم نے انکوائری کروائی، ہمیں سب سے پہلے عدالت کے علاقے کی جیو فینسنگ کروانی ہوگی مگر ڈیٹا کا مسئلہ ہے، سی ڈی آر نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں، اسلام آباد ہائیکورٹ نے ٹیلیفون کمپنیوں کو حکم دیا ہے کہ وہ کسی کو موبائل ڈیٹا نہیں دیں گی، ہماری وزرات داخلہ اور وزارت داخلہ کے ساتھ فوری طور پر ایک کمیٹی بنائی جائے۔چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے اِن سے کہا کہ اگر جیو فینسنگ کی اجازت نہیں ملتی تو آپ بندے کو گرفتار نہیں کریں گے؟ بہاولپور میں جج صاحب کے گھر کے باہر جو میٹر توڑا گیا، اس کی کیا معلومات ہیں ؟ جج محمد عباس ہمارے بہت اچھے جوڈیشل افسر ہیں جنہوں نے کہا ہے کہ حساس ادارے کے بندے سے ملنے کا پیغام پہنچایا گیا، کیا آپ نے وہ بندہ ڈھونڈا ہے جو جج صاحب سے ملنا چاہتا تھا ؟ میرا سوال یہ ہے کہ حساس ادارے کے کس بندے نے پیغام پہنچایا؟آئی جی پنجاب نے جواب دیا کہ میں نے متعلقہ افسران سے اس حوالے سے پوچھا اُنہوں نے صاف انکار کر دیا، میں نے اس حوالے سے پتا کروایا ہے، ہمیں ایسی کوئی رپورٹ نہیں ملی۔چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے پوچھا کہ آپ نے کس قانون کے تحت وکلا اور سائلین کو اے ٹی سی عدالت جانے سے روکا؟آئی جی پنجاب نے جواب دیا کہ اس حوالے سے خاص خطرہ تھا، اس لیے بند کیا گیا۔
چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے ریمارکس دیے کہ پھر پورے پاکستان کی عدالتوں کو بند کر دیں، سارے پاکستان میں ہی تھریٹ الرٹ ہے، آپ مجھے کوئی قانون بتا دیں کہ کس قانون کے تحت عدالت میں جانے سے روکا گیا ؟آئی جی پنجاب نے جواب دیا کہ ہم نے دفعہ 144 نافذ کی تاکہ لوگ اکٹھے نہ ہوں۔چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے استفسار کیا کہ ہم لوگوں کے اکٹھے ہونے کی بات نہیں کر رہے، عدالت میں جانے سے کیوں روکا ؟ آپ پھر کرفیو نافذ کر دیں۔آئی جی نے رپورٹ عدالت میں جمع کرواتے ہوئے کہا کہ یہ بہت حساس نوعیت کی رپورٹ ہے جو صرف آپ کے لیے ہے، سرگودھا عدالت میں جانے والے تمام راستے بند کردیے گئے تھے، کچھ سیکیورٹی تھریٹس ہیں، اس پر کام جاری ہے۔ڈی پی او سرگودھا نے کہا کہ ہمیں اس حوالے سے تھریٹ الرٹ ملا تھا، ہم نے جج صاحب کو کام سے نہیں روکا۔چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے ریمارکس دیے کہ آپ نے وکلا اور سائلین کو عدالت میں گھسنے نہیں دیا، جج صاحب اپنے کام سے نہیں رکے، انہوں نے خط میں بھی لکھا ہے کہ وہ ڈرنے والے نہیں، جو کام انہوں نے کرنا تھا، آپ نے اس کام سے انہیں روکا، آپ کا حساب تو اُنہوں نے لینا ہے جنہیں آپ خوش کر رہے ہیں، آئی جی صاحب، براہ کرم عدالت کا مذاق نہ بنائیں، کور کمانڈر کے گھر حملہ ہوا، اس پر عدالتوں نے فیصلے کرنے ہیں، صوبے کی سب سے بڑی عدالت پر حملہ ہوا تو آپ نے کسی کو مقدمے میں نامزد نہیں کیا، جو جج پسند نہ ہو اس کے خلاف بیان بازی شروع کر دیتے ہیں، اس ملک میں دوہرا معیار ہے، اس کے خلاف سوشل میڈیا پر پروگرام چلوائے جاتے ہیں۔مزید دیکھئے اس ویڈیو میں