(24نیوز)اسلام آباد ہائیکورٹ میں بانی پی ٹی آئی عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی اور سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے صاحبزادے نجم ثاقب کی جانب سے مبینہ آڈیو لیک کیخلاف دائر درخواست پر سماعت کے دوران جسٹس بابر ستار نے دریافت کیا کہ کیا پاکستان ٹیلی کمیونکیشن اتھارٹی کسی ایجنسی کو سہولت فراہم کر رہی ہے؟
جسٹس بابر ستار نےکیس کی سماعت کی، سماعت کے آغاز پر موبائل کمپنیز کے وکیل نے دلائل دیئے،جسٹس بابر ستار نے ریمارکس دیئے کہ وفاقی حکومت کہہ رہی ہے ہم کسی کو مجاز نہیں کرتے ، اس پر وکیل نے جواب دیا کہ سسٹم بھی لگا ہوا ہے چابی بھی ان کے پاس ہے، وفاقی حکومت کا ہی اختیار ہے، حکومت اور ایجنسیز کو سسٹم تک رسائی ہے، وہ سسٹم ان کے دائرہ اختیار میں ہے، ہم سسٹم تک پاکستان ٹیلی کمیونکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کو رسائی دے دیتے ہیں وہ جس ایجنسی کو چاہتے ہیں اس کو دے دیتے ہیں۔
وکیل نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ پی ٹی اے ہی اس حوالے سے بہتر جواب دے سکتا ہے،اس پر جسٹس بابر ستار نے کہا کہ کسی موبائل کو ٹریس کرنے کیلئے آپ کا کیا کردار ہوتا ہے؟ وکیل نے کہا کہ یہ معلومات میں حاصل کرکے عدالت کو آگاہ کردوں گا،اس پر عدالت نے ریمارکس دیئے کہ پی ٹی اے وفاقی حکومت کی اجازت کے بغیر کیسے لیگل انٹرسیپشن کی شقیں شامل کر سکتا ہے؟
عدالت کے سوال پر پی ٹی اے کے وکیل عرفان قادر نے بتایا کہ قومی سلامتی یا کسی بھی جرم کے خدشے پر وفاقی حکومت فون ٹیپنگ کی اجازت دے سکتی ہے، فون ٹیپنگ کی اجازت دینا وفاقی حکومت کا اختیار ہے، پی ٹی اے کا نہیں،اس موقع پر جسٹس بابر ستار نے کہا کہ لیکن وفاقی حکومت نے اپنے جواب میں کہا ہے کہ انہوں نے لیگل انٹرسیپشن کی کوئی اجازت نہیں دی ہے، کیا وفاقی حکومت کی اجازت کے بغیر ٹیلی کام آپریٹرز کسی ایجنسی کو فون ٹیپنگ کی اجازت دے سکتے ہیں؟
وکیل پی ٹی اے عرفان قادر کا کہنا تھا کہ اگر پی ٹی اے کے پاس ایسی کوئی شکایت آئے تو ریگولیٹر کے طور پر ایکشن لیں گے،جسٹس بابر ستار کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت کی جانب سے قومی سلامتی کیلئے لیگل انٹرسیپشن کی اجازت دینے میں تو مسئلہ نہیں ہے، آپ کا مؤقف ہے کہ پی ٹی اے نے لیگل انٹرسیپشن کیلئے کبھی خط و کتابت نہیں کی؟،اس پر چیئرمین پی ٹی اے میجر جنرل ریٹائرڈ حفیظ الرحمن نے عدالت میں کہا کہ کیا میں بات کر سکتا ہوں؟جسٹس بابر ستار نے کہا کہ جی بالکل، آپ کو انا کی تسکین کے لئے نہیں بلکہ عدالتی معاونت کیلئے طلب کیا ہے،ان کا مزید کہنا تھا کہ کیا پی ٹی اے کسی ایجنسی کو کوئی سہولت فراہم کر رہی ہے؟،اس پر چیئرمین پی ٹی اے نے بتایا کہ پی ٹی اے نے یہ شق ڈالنی ہوتی ہے، اس پر عملدرآمد ہوتا ہے یا نہیں اس سے ہمارا تعلق نہیں، لیگل انٹرسیپشن کے علاوہ لائسنس کی تمام شقوں پر پی ٹی اے عملدرآمد کراتا ہے۔
انہوں نے عدالت کو آگاہ کیا کہ میں گزشتہ ہفتے بارسلونا میں ٹیلی کام سے متعلق کانفرنس میں کلیدی اسپیکر تھا،اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ 90 فیصد موبائلز میں وائرس ہوتا ہے، کیمرہ بھی آپریٹ کیا جا سکتا ہے، اسرائیل کی ایک کمپنی نے پیگاسس سافٹ ویئر بنایا جو موبائل کو متاثر کرتا ہے، یہ مشکل کام نہیں ہے، ایک منٹ لگتا ہے اور موبائل ہیک کیا جا سکتا ہے۔
میجر جنرل ریٹائرڈ حفیظ الرحمن نے جسٹس بابر ستار سے مکالمہ کیا کہ آپ فون میرے پاس چھوڑ کر واش روم جائیں، اتنی دیر میں موبائل کنکٹ کر کے مکمل رسائی لی جا سکتی ہے،اس موقع پر پی ٹی اے کے وکیل وکیل عرفان قادر نے کہا کہ چیئرمین پی ٹی اے کہہ رہے ہیں کہ غیر قانونی انٹرسپشن ایک سمندر ہے،اس پر جسٹس بابر ستار نے وکیل سے استفسار کیا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ یہ سب غیر قانونی فون ٹیپنگ ہو رہی ہے؟،5 مارچ کو ہونے والی سماعت میں عدالت نے پی ٹی اے کے چیئرمین کو طلب کرلیا تھا۔
خیال رہے کہ 19 فروری کو ہونے والی سماعت میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے بانی پاکستان تحریک انصاف عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی اور سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے صاحبزادے نجم ثاقب کی مبینہ آڈیو لیک کے خلاف کیس پر سماعت کے دوران سرکاری افسران کی عدم پیشی پر برہمی کا اظہار کیا تھا۔