بھارت: کرناٹک انتخابات میں حجاب پر پابندی لگانے والے بی جے پی کے وزیر تعلیم کو شکست
Stay tuned with 24 News HD Android App
(ویب ڈیسک) 2021ء میں بھارتی ریاست کرناٹک میں بھارتیہ جنتا پارٹی وزیر تعلیم بی سی ناگیش سرخیوں میں رہے۔
حجاب تنازعے سے لے کر سکولوں کے نصاب میں ’اپنے نظریات‘ شامل کرنے کے الزام تک، ناگیش نہ صرف ریاست میں ہر مذہبی تنازعے کا محور رہے ہیں بلکہ اپوزیشن کی تمام تر تنقید کا ہدف بھی رہے ہیں۔
ہفتے کے روز بی سی ناگیش ایک بار پھر خبروں کی زینت بنے تاہم اس مرتبہ وجہ تھی ان کی ریاستی اسمبلی کی سیٹ کے انتخابات میں شکست۔ انہیں ضلع تمکر سے اپنے مخالف کانگریسی امیدوار کے ہاتھوں 17 ہزار سے زائد ووٹوں سے شکست ہوئی۔
#KarnatakaResults | As Congress wins, here's a look at where parties stand.
— The Indian Express (@IndianExpress) May 13, 2023
Riding anti-incumbency and in the face of high-octane campaign, read how #Congress notches up best vote share, tally since 1989 here ????https://t.co/Oq74Y26OOT#karnatakaelections2023… pic.twitter.com/bOHNeB5nue
وہ پہلی بار 2008ء میں ممبر صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔ 2013ء میں انہیں شکست ہوئی اور 2018ء میں 25 ہزار سے زائد ووٹوں کے فرق سے دوبارہ منتخب ہوئے۔
یہ بھی پڑھیے: پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے والے عمران خان کے بھارت میں خوب چرچے
حجاب تنازعے کے دوران بی سی ناگیش کو کلاس رومز میں حجاب پہننے پر پابندی لگا کر مسلمان لڑکیوں کو تعلیم سے ’محروم‘ کرنے پر شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ معاملہ ابھی بھی عدالت میں ہے تاہم سابق وزیر تعلیم ہمیشہ سے ہی تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی کے حامی رہے ہیں۔
ناگیش اور ان کی انتظامیہ کو آزادی پسند بھگت سنگھ اور سماجی مصلح نارائن گرو پر مشتمل اسباق کو سکولوں کے نصاب سے نکالنے کیلئے بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا، ان کی جگہ آر ایس ایس کے بانی کے ایچ ہیڈگیوار اور دائیں بازو کے نظریے سے وابستہ دیگر افراد کی تقاریروں کو شامل کیا گیا۔
تنقید کے بعد بھگت سنگھ اور نارائن گرو پر مشتمل اسباق کو دوبارہ شامل کر لیا گیا لیکن ہیڈگیوار کی تقریریں بھی برقرار رکھی گئیں۔
بہت سے لوگ اسے بی جے پی کی بجائے نریندر مودی کی شکست بتا رہے ہیں۔
روشنی کے آر رائے نامی ایک صارف نے نریندر مودی کے ذریعے اٹھائے جانے والے معاملوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھا، ’وہ ہندو مسلم لے آئے، وہ پاکستان (کا ذکر) لے آئے، انھوں نے وکٹم کارڈ کھیلا، انھوں نے جیتنے کیلئے سب کچھ کیا جو کرسکتے تھے۔
’اس کے باوجود وہ 75 سیٹ سے اوپر نہیں جا رہے ہیں۔ یہ مودی کی ہار ہے۔ یہ الیکشن ان کے چہرے پر لڑا گیا تھا۔‘
He brought Hindu Muslim
— Roshan Rai (@RoshanKrRaii) May 13, 2023
He brought Pakistan
He vrought the victim card
He used everything he could to win
He made it Modi vs Congress
and yet he isnt even crossing 75 seats.
This is Modi's loss, this election was fought on his face.#KarnatakaElectionResults2023 pic.twitter.com/SkAlF1p4Fw
جے اے ميگرے نامی صارف نے ایک خاکروب کی ویڈیو ڈالتے ہوئے لکھا، ’کنول کو کامیابی کے ساتھ ہٹا دیا گيا۔ جشن منانے کا وقت ہے۔ انڈین نیشنل کانگریس فاتح‘۔
واضح رہے کہ کنول بی جے پی کا انتخابی نشان ہے اور اس انتخاب میں آپریشن کنول کا بھی ذکر ہوا تھا۔
Lotus has been removed successfully.
— J A Magray (@ja_magray) May 13, 2023
It's time to celebrate.
INC wins.#BJPMuktSouthIndia #CountWithNews18Kannada #KarnatakaElectionResults2023 #VoteCounting pic.twitter.com/CSMQ7c8YAZ
اس کے علاوہ واٹس ایپ پر ایک پیغام گردش کر رہا ہے جس میں یہ دکھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ گذشتہ چھ برسوں میں بی جے پی کو 19 ریاستوں میں ناکامی ملی ہے اور جہاں وہ حکومت میں ہے وہاں ایک چھوٹے پارٹنر کی حیثیت سے لیکن انڈین میڈیا میں ایسی تصویر پیش کی جاتی ہے اور یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ سارے ملک میں مسٹر مودی ہی جیت رہے ہیں۔
جالیٹیشین نامی ایک صارف نے لکھا، ’میں سارے ساؤتھ انڈیا کا نفرت سے پاک ہونے پر احترام کرتا ہوں۔ کرناٹک والوں نے بی جے پی کو اس کی جگہ دکھا دی، اب ہماری باری ہے کہ ہم بی جے پی کو 2024ء میں رد کر دیں‘۔
I have a lot of respect for the entire South India for being hatred free. Kannadigas showed BJP their place, it's now our turn to rule out BJP in 2024.#KarnatakaElectionResults #BJPMuktSouthIndia pic.twitter.com/9DQnZXbOJ4
— Jollytician (@the_lad_one) May 13, 2023
کرناٹک میں اس سے قبل بھی کانگریس کو بی جے پی سے زیادہ ووٹ ملے تھے لیکن سیٹیں بی جے پی کی زیادہ تھیں تو اس نے حکومت سازی کی تھی۔
موجودہ اسمبلی میں حکمراں بی جے پی کے 116 ایم ایل اے ہیں، کانگریس کے 69، جے ڈی ایس کے 29، بی ایس پی کے ایک اور دو آزاد ہیں۔ چھ نشستیں خالی ہیں جبکہ ایک سپیکر کی نشست ہے۔