(24 نیوز)تین دن کے احتجاج اور سخت ترین کشیدہ حالات کے بعد اب عوامی ایکشن کمیٹی اور حکومت کے درمیان مذکرات کامیاب ہو گئے ہیں ۔اتوار کی شام بھی مذاکرات کی کامیابی کی خبری چلی لیکن عوام ایکشن کمیٹی نے مطالبات کو تسلیم کرنے کا نوٹیفیکشن جاری کرنے تک اس احتجاج کو ختم نہ کرنے کا اعلان کیا تھا۔جس کے بعد پہلے پیر کے روز وزیر اعظم شہباز شریف کی زیر صدارت آزاد کشمیر کی صورتحال پر اعلیٰ سطحی اجلاس طلب کیا گیا۔جس میں آزادکشمیرکے وزرا اور اعلیٰ سمیت سیاسی قیادت نے شرکت کی جب کہ وفاقی وزرا اور اتحادی جماعتوں کے زعما بھی اجلاس میں شریک تھے۔اسی اجلاس میں وزیراعظم نے کشمیری عوام کے مسائل کو حل کرنے کیلئے 23 ارب روپے کی فوری فراہمی کی منظوری دی۔ جس کے بعد وزیر اعظم آزاد کشمیر میں ایک پریس کانفرنس کے ذریعے بتایا کہ عوامی ایکشن کمیٹی کے مطالبات تسلیم کرلیے گئے، سستی روٹی، سستی بجلی کے مطالبات سےکوئی انکار نہیں کرسکتا، پہلے 3100 روپے فی من آٹےکا نرخ تھا، آٹے کا اب فی من نرخ 2000 روپے مقررکیا گیا ہے، بجلی کے ایک سے 100 یونٹ تک کے نرخ 3 روپے، 100 سے 300 یونٹ کے 6 روپے ہوں گے، سبسڈی سے 23 ارب روپےکا بوجھ پڑے گا جسے حکومت پاکستان نے خوش دلی سے قبول کیا۔
پروگرام’10تک‘کے میزبان ریحان طارق نے کہا ہے کہ اس پیش رفت کے فوری بعد حکومت آزادکشمیر نے آٹے کی قیمت میں کمی اور بجلی کے نئے نرخ کے نوٹیفکیشن بھی جاری کردیے ۔یوں یہ احتجاج تو اختتام پذیر ہو گیا جس کے بعد انٹرنیٹ بھی بحال کر دی لیکن یہ احتجاج اپنے پیچھے کئی سوالات کو چھوڑ گیا ہے۔یہاں سوال یہ ہے کہ اسی عوامی ایکشن کمیٹی نے یہی مطالبات ایک برس پہلے کیے تھے۔تب نگران حکومت نے ان کو بجلی اور آٹے میں سبسڈی کا وعدہ کیا تھا ۔لیکن بعد آئی ایم ایف کے دباو پر ان وعدوں سے پیچھے ہٹ گئے۔
سوال یہ ہے اگر حکومت کی کوئی مجبوری تھی تو اس نے عوامی ایکشن کمیٹی سے اس متعلق بات چیت کرنا کیوں مناسب نہ سمجھا۔یہاں سوال یہ بھی کہ آزاد کشمیر ایکشن کمیٹی نے احتجاج شروع کرنے سے پہلے اس احتجاج کا شیڈول جاری کیا۔تب اس احتجاج کو روکنے اور ان کےخدشات دور کرنے کےلیے کیوں کچھ نہ کیا گیا۔ اھتجاج کرنا بنیادی حق تھا تو ہر معاملے کو دبانے کا حل دفعہ 144 نافذ کرنا ہی باقی رہ گیا تھا۔ یہاں سوال یہ بھی ہے اگر آج تین سے چار دن پر تشدد احتجاج کے بعد یہ مطالبات تسلیم کر لیے گئے تو یہ پہلے کیون تسلیم نہیں کیے گئے؟ ان تین روز کے دوران پوری دنیا میں ملک کی جگ ہنسائی ،دشمن ملک کی طرف سے جاری منفی پراپیگنڈہ کی ذمہ داری کون لے گا۔آج بلا ٹل تو چکی ہے لیکن ان تین دنوں کے درمیان ایک پولیس والا جابحق کئی اور ذخمی ہوئے۔ ایک کمشنر کے ٹراوزر کو سربازار لٹکایا گیا۔اور اس کی گاڑی نظر آتش کر دی گئی ۔حکومتی رٹ چیلنج ہوتی رہی ۔اس کا جواب دہ کون ہوگا؟ اس احتجاج کے دوران ھکومت کی مخالف جماعتیں اس پر خوب سیاست چمکاتی رہی ۔اس احتجاج کے دوران حکومت مخالف جماعتوں نے بھی اپنی سیاست خوب چمکائی ۔خصوصا تحریک انصا ف کی مقامی قیادت نے حالات کو بڑھکانے کے لیے خاصا کر دار ادا کیا۔سابق وزیر اعظم آزاد کشمیر عبدالقیوم نیازی نے تو موقع سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے فوری الیکشن کا مطالبہ کر دیا۔جس کا کہنا تھا قوم کا اس صورتحال میں اعتماد میں لیا جائے ورنہ یہ لوگ جو چلے ہوئے ہیں یا یہ مریں گے یا خیریت سے آپ اس صورت میں بھیج سکتے کہ ان کے مطالبات پورے کیے جائیں۔ یہ حکومت چلنے کے قابل نہیں ہے آزاد کشمیر میں نیا مینڈیٹ ہونا چاہیے۔
تحریک انصاف کے اس طرح کے رویے پر وزیر دفاع خواجہ آصف اسے موقع سے فائدہ اٹھانے کے مترادف قرر دیتے ہیں ۔جن کا کہنا تھا کہ حریک انصاف کا یہ خیال ہے کہ معیشت نے اگلے 6 مہینوں میں سانس لینا شروع کردیا تو مہنگائی میں کمی اور وسائل میں اضافہ ہوگیا تو انکی سیا ست ختم ہوجائے گی۔مزید دیکھئے اس ویڈیو میں