(24نیوز)کینسر جب جسم میں پھیلتی ہے تو مریض کو شدید درد کا سامنا کرنا پڑتا ہےلیکن اس سے پہلے بھی کینسر کی ابتدائی سٹیج میں جسم کے کئی حصوں میں درد شروع ہوتا ہے، جو ناقابل برداشت ہوتا ہے،یہ درد قابل علاج ہے اور لاہور میں آپ اس کو فری میں کرواسکتے ہیں۔
24 نیوز کے پروگرام’مارننگ ود فضا‘میں ماہر امراض پین مینیجمنٹ سپیشلسٹ ڈاکٹر سید محمود نے کینسر جیسے موذی مرض اور اس سے مرتب ہونے والے مریض کی زندگی پر اثرات پر بات کی،انہوں نے کہا کہ کینسر کا عموما پاکستان میں تشخیص بہت دیرسے ہوجاتی ہے اور دوسرے یا تیسرے سٹیج پر پہنچنے کے بعد اس کے بارے میں معلوم ہوجاتا ہے۔
ڈاکٹر سید محمود جو ایک مقامی طور پر این جی او کے سربراہ ہیں جنہوں نے کینسر کی مرض میں مبتلا لوگوں کو کینسر کی درد سے نجات دلانے کیلئے ’کینسر پین ریلیف سوسائٹی‘ کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا ہے جس میں لوگوں کو بلامعاوضہ علاج کراتے ہیں،انہوں نے کہا کہ کینسر کی مرض جب انسان کی جسم میں پھیلنے لگے تو اس سے مریض کو شدید قسم کی دردہوتی ہے اور ایہ اتنی شدید قسم کی درد ہوتی ہے کہ معلوم کرنے کیلئے کہ کتنا درد ہے ، ہم ایک ویجول انالاگ سکور نامی ایک پراسس کرتے ہیں،چونکہ کینسر کا درد تمام درد کا ایک مجموعہ ہے،اس میں ہڈی سمیت جسم کے کئی حصے متاثر ہوسکتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ درد سب سے شدید خوفناک درد ہوتی ہے جس کا اندازہ نہیں کرسکتے ۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس جو لوگ آتے ہیں،ان میں یہ 10/ 10 ہوتا ہے،اس کا مطلب کہ نہ یہ مریض سو سکتے ہے نہ بیٹھ سکتے ہیں نہ کھا سکتے ہیں مطلب کچھ بھی نہیں کرسکتے ، اکثر مریضوں کی یہ حالت ہوتی ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ ہم چاہتے ہیں کہ خودکشی کرلے، ڈاکٹر محمود نے بات کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ درد محض کسی مرض کی نشانی نہیں بلکہ یہ خود ایک مرض ہے۔
ڈاکٹرسید محمود نے کہا کہ لوگوں کا اندازہ نہیں کہ یہ مرض ایک قابل علاج مرض ہیں اور اس میں ان کے پیاروں کو آرام مل سکتا ہے،ان کی جو زندگی رہ گئی اس میں ان کا آرام ملے،یہ ایک قابل علاج ہے لیکن آپ کو مستند ڈاکٹر کے پاس جانا ضروری ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہماری ’کینسر پین ریلیف سوسائٹی‘ اس درد سے نجات دلانے کیلئے آپ کی مدد کیلئے لاہور میں موجود ہے اگرچہ اس میں ایک مریض کا خرچہ 10 ہزار سے لے کر 2 لاکھ تک ہے لیکن ہم ہر قسم کے مریض کو اس درد سے نجات دلوانے کیلئے اپنی بھر پور کوشش کرتے ہیں۔
کونسے ادویات ہیں جس سے کینسر کی درد ختم ہوجاتی ہے ؟
ڈاکٹر محمود نے کہا کہ اس میں استعمال ادویات باقی کینسر میڈیسن کی طرح ہیں مہنگی ہونے کے ساتھ مشکل سے مل جاتی ہے،لاہور میں اگر ہم بات کر ے تو شوکت خانم اور انمول میں مارفین مل جاتا ہے کیونکہ حکومت کی جانب سے اس پہ چیک اینڈ بیلنس بہت زیادہ ہے چونکہ یہ نارکوٹک میں آتا ہےتو اس کی عدم دستیابی ایک چیلنج ہے،ان کا کہنا تھا کہ اس درد کے علاج کیلئے ہم دوائی سے شروع کرتے ہیں چونکہ عام درد لینے والی دوائیوں سے ان کا درد کم نہیں ہوتا اور کوئی فرق نہیں پڑتا،مارفین جو کینسر کی درد میں موثر ہے اور ایشیا میں سب سے زیادہ پیدا کئےجاتے ہیں لیکن مارفین کا 80 فیصد امریکہ کو درکار ہوتی ہے اور وہ اس کو خرید لیتے ہیں جس سے باقی ممالک جو غریب ہے وہ رہ جاتے ہیں۔
دوائی اور استعمال کب اور کیسے ؟
ڈاکٹر سید محمود کے مطابق ان کے پاس وہ مریض آتے ہیں جو کینسر کے آخری سٹیج پر ہوتے ہیں اور ان کے پاس پیسے نہیں ہوتے کیونکہ وہ مختلف وسم کے علاج کرواکر مفلص ہوجاتے ہیں،درد کو مینیج کرنے کیلئے ہمارے پاس آتے ہیں،ایک نہیں ہر دوسر مریض کا یہ حال ہوتاہے۔
پہلے دو سٹیج پہ تو کینسر کا بہت کم پتہ چلتا ہے لیکن تیسرے اور چھوتے پر یہ درد ہوتی ہے ،ہم سادہ دوائی سے شروع کرتے ہیں،جیسا کہ کینسر اور مریض کو ساتھ لے کر چلنا ہوتا ہے تو ہم پیناڈول سے شروع کرتے ہیں اور پھرآہستہ آہستہ مارفین اور او پی آئیڈ وغیرہ پہ آجاتے ہیں، درد لے جانے والے نسوں کو ہم کاٹ لیتے ہیں جس سے مریض کو آرام مل جاتا ہے اور ایک محفوظ طریقہ ہے۔
یہ بھی پڑھیں:وہ عام غلطیاں جو پرفیوم کی خوشبو جلد ختم کر دیتی ہے ؟