(24نیوز)امریکا نے پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ افغانستان میں طالبان کی حکومت کو اس وقت تک تسلیم نہ کرے جب تک طالبان خواتین کو حقوق نہیں دیتے اور افغانستان سے نکلنے کے خواہش مندوں کو جانے کی اجازت نہیں دیتے اور وعدے پورے نہیں کرتے۔
میڈیارپورٹس کے مطابق امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد پہلی بار ارکان کانگریس کے سوالوں کے جواب دئیے۔امریکی ایوان نمائندگان کی خارجہ امور کمیٹی کو بلنکن نے بتایا کہ امریکا چاہتا ہے کہ پاکستان اس وقت تک طالبان حکومت کو تسلیم نہ کرے جب تک وہ افغان سر زمین کو دہشت گردوں کی آماج گاہ نہ بننے کے و عدے کی پاسداری نہیں کرتے۔امریکی وزیرخارجہ نے یہ بھی کہا کہ پاکستان کا افغانستان میں کردار رہا ہے ، پاکستان نے امریکا کے ساتھ تعاون بھی کیا اور ہمارے مفادات کے خلاف بھی رہا۔انہوں نے کہا کہ امریکا کے مستقبل میں پاکستان کے ساتھ تعلقات کی بنیاد کیا ہونی چاہئے اس کا جائزہ آنے والے ہفتوں میں لیا جائے گا۔
امریکی وزیر خارجہ نے کہا کہ افغانستان میں امریکی اہداف حاصل کر لئے گئے تھے، وقت آگیا تھا کہ امریکاکی طویل جنگ کا خاتمہ کیا جاتا، طالبان سے معاہدہ ہمیں پچھلی انتظامیہ سے ملا، معاہدے کے تحت افغان حکومت پر زور دیا گیا کہ وہ پانچ ہزار قیدیوں کو چھوڑ دے، معاہدے کی پاسداری نہ کرتے تو امریکی افواج پر حملوں کا خدشہ تھا۔انہوں نے کہا کہ افغانستان میں امریکا کا مزید نقصان ہونے کا احتمال تھا، افغانستان میں مزید وقت رہنے سے جنگ کے خاتمے کی گارنٹی نہیں تھی، امریکی شہریوں کی سکیورٹی ہماری ترجیح رہی ہے، مارچ سے اگست تک 19 پیغامات اور وارننگ جاری کی گئیں کہ امریکی افغانستان سے نکل جائیں۔امریکی وزیر خارجہ نے بتایا کہ مارچ 2020 سے خصوصی ویزہ پروگرام میں ایک بھی افغان شہری کا انٹرویو نہیں کیا گیا تھا، ہم نے خصوصی ویزہ پروگرام کو بڑھایا۔امریکی وزیر خارجہ نے بتایا کہ افغانستان میں سفارتی مشن شروع کر دیا گیا ہے، ہم افغانستان میں موجود امریکی اور افغان شہریوں کی مدد کرتے رہیں گے، جو امریکی اور دوسرے شہری افغانستان سے نکلنے کے خواہشمند ہیں انہیں نکالا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ طالبان نے کہا ہے کہ افغان سرزمین شدت پسندوں کو استعمال نہیں کرنے دی جائے گی، طالبان نے کہا ہے کہ القاعدہ اور داعش افغان سرزمین استعمال نہیں کریں گے، ہم خطے میں انسداد دہشت گردی کےلئے کردار ادا کرتے رہیں گے۔بلنکن نے کہا کہ اس سال انسانی ہمدردی کی بنیاد پر 33 کروڑ ڈالر کی امداد افغانستان کو دی جا رہی ہے، گزشتہ ہفتے تک 100امریکی شہریوں نے افغانستان چھوڑنے کا پیغام بھیجا،60 افراد کے لئے طیارے میں جگہ تھی لیکن صرف 30 ائیرپورٹ پہنچے۔امریکی وزیر خارجہ نے ایوان نمائندگان کی کمیٹی کو بتایا کہ طالبان پرواضح کیا تھا کہ جامع اور افغانوں کی نمائندہ حکومت ہی تسلیم کی جائےگی۔انہوں نے کہا کہ اشرف غنی کی حکومت کو بتایا تھا کہ افغانستان کا بھرپور دفاع کریں، چین چاہتا تھا کہ ہم افغانستان میں پھنسے رہیں، کابل ائیرپورٹ پرکام جاری رہے اس معاملے پر ترکی اور قطر کے ساتھ رابطے میں ہیں۔پاکستان کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں امریکی وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان کے ساتھ تعلقات کا جائزہ لیں گے، گزشتہ 20 برس اور اس سے پہلے بھی پاکستان کا افغانستان میں کردار رہا، افغانستان کے مستقبل سے متعلق پاکستان کا مسلسل مخصوص رویہ رہا۔بلنکن نے کہا کہ پاکستان نے شدت پسندی کے انسداد کے لئے تعاون کیا، افغانستان کے حوالے سے پاکستان کی فیصلہ سازی کثیر نکاتی رہی۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کے افغانستان میں مختلف مفادات ہیں جن میں سے بعض امریکی مفادات سے متصادم ہیں۔انہوں نے کہا کہ آئندہ ہفتوں میں پاکستان سے تعلقات پر توجہ مرکوز رکھیں گے، جائزہ لیں گے کہ افغانستان میں امریکا کیا کرناچاہتا ہے اورپاکستان سے کیا توقعات ہیں۔انٹونی بلنکن نے کہا کہ امریکا نے افغانستان میں بدترین صورتحال کے لئے منصوبہ بندی کر رکھی تھی، گزشتہ انتظامیہ نےافغانستان سے متعلق ڈیڈ لائن بتائی تھی کوئی منصوبہ نہیں دیا تھا، بائیڈن انتظامیہ کی ترجیح امریکیوں کی زندگیاں محفوظ بنانا تھی، پیشگوئی نہیں تھی امریکی افواج کی موجودگی میں افغان فورسز اتنی جلد پسپا ہوجائیں گی، طالبان نے کابل کی طرف تیز مارچ کر کے معاہدے کی خلاف ورزی کی۔
یہ بھی پڑھیں: عمر شریف ائیر ایمبولینس کے ذریعے امریکہ جائینگے،اہلیہ زریں