(ویب ڈیسک ) سینئر صحافی اوراینکر پرسن حامد میر نے اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ ماحولیاتی بگاڑ میں پاکستان کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے اور اس کے ذمہ دار ترقی یافتہ صنعتی ممالک ہیں ،مگر دوسروں کی غلطیوں کی سزا پاکستان کو بھگتنا پڑ رہی ہے۔
اینکر پرسن حامد میر کے مطابق پاکستان اس وقت سیلاب میں ڈوبا ہےاور تقریباً تیس ارب ڈالر کا نقصان ہوچکا ہے جبکہ تین کروڑ تین لاکھ سے زائد افراد سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں جن میں ایک کروڑ ساٹھ لاکھ بچے ہیں ۔ اس تباہی اوربربادی کی
وجہ پاکستان نہیں بلکہ ترقی یافتہ ممالک ہیں۔ واشنگٹن پوسٹ میں اپنے مضمون کےذریعہ حامد میر نےسیلاب زدہ علاقوں کے اپنے دورے کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے لکھا کہ ایک تہائی پاکستان زیر آب ہے، یعنی برطانیہ کےبرابر رقبہ پانی میں ڈوباہے اور یہ انسانی المیہ اتنا شدید ہے کہ تباہی کے کربناک مناظر دیکھنے والی آنکھیں بھیگ جاتی ہیں ۔
حامد میر نے مزید لکھا کہ ماہرین کے مطابق گلوبل ایمیشن میں پاکستان کا حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے ۔ نقصان اتنا شدید ہے کہ عالمی برادری بھی فکرمند ہوگئی ہے ، اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے بھی پاکستان کادورہ کیا اور اس بات پر تشویش کا اظہارکیا کہ صنعتی طورپر ترقی یافتہ ممالک کی غلطی کی سزا پاکستان کوبھگتنا پڑرہی ہے۔
حامد میر نےاس بات پرزوردیاہے کہ پاکستان کو بھی جائزہ لینا چاہیےکہ بڑی تباہی سے بچنےکیلئے ہم کیا احتیاط کرسکتے ہیں ، دریائے سوات کےاندر ہوٹلز بنائے گئے جو سیلاب میں بہہ گئے۔ پاکستان اگر دوہزار دس کےسیلاب سے سبق سیکھتا تو اس بار اتنی تباہی سے بچاجاسکتا تھا۔ماہرین ماحولیات نےخدشہ ظاہر کیا ہے کہ پاکستان کو آئندہ بھی بڑی تباہی کا خطرہ ہے ۔