صدرمملکت نے کس کے کہنے پر الیکشن کمیشن کو خط لکھا؟انتخابات کا اعلان کیوں نہیں کیا؟
Stay tuned with 24 News HD Android App
کچھ عرصہ سے افواہیں زیر گردش تھی کہ صدر مملکت الیکشن ایکٹ کے برعکس ماورائے آئین الیکشن کی تاریخ دینے جا رہے ہیں ۔ کچھ دیر کے لیے یہ افواہیں تھمی لیکن گزشتہ دو روز سے یہ افواہیں دوبارہ سے زور پکڑ گئی ۔جس کے بعد صدر مملکت نے ا لیکشن کی کوئی تاریخ مقرر کرنے کی بجائے الیکشن کمیشن کو ایک خط لکھ کر 6 نومبر کو الیکشن کرانے کی تجویز دی ہے۔ان کے خط سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے ایک بار پھر پارٹی چئیرمین یا خاتون اول اور تحریک انصاف کے کارکنوں کے ہاتھون مجبور ہوکر ایک تیر سے دو نشانے لگائے ہیں ۔پروگرام’10تک ‘کے میزبان ریحان طارق نے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں تاریخ اناونس کرنے کی بجائے خط لکھ کر صرف الیکشن کی تاریخ تجویز کی ہے۔اس طرح انہوں اپنے اوپر پڑے دباو کو کم کرنے کی کوشش کی ہے۔ان کے اس عمل سے ان کے پارٹی رہنما اور کارکن بھی مٹھائیاں بانٹ رہے ہین جبکہ قانونی طور الیکشن کمیشن بھی ان کی تجویز سے متفق نہ ہونے کا دوبارہ خط لکھ دے گے ۔اس طرھ الیکشن کا معاملہ ایک بار پھر خط و کتابت کی نظر ہوگا۔جیسے پنجاب اور کے پی اسمبلیوں کے وقت ہوا۔اس خط مین صدر مملکت نے الیکشن کمیشن کو اعلیٰ عدالتوں سے بھی رجوع کرنے کی تجویز دے کر الیکشن کمیشن کو انتخابات میں تاخیر کی ایک راہ بھی دکھا دی ہے۔کیونکہ اگر یہ معاملہ ایک بار سپریم کورٹ گیا تو عین ممکن ہے کہ اس کا نتیجہ اس وقت نکلے جب 90 روز سے وقت زیادہ ہو چکا ہوں ۔صدر مملکت نے الیکشن کمیشن کو جو خط لکھا ہے اس کے متن کے مطابق صدرمملکت ڈاکٹر عارف علوی نے الیکشن کمیشن کو تجویز دی ہے کہ آئین کے مطابق قومی اسمبلی کی تحلیل کے بعد 90 روز کے اندر عام انتخابات پیر 6 نومبر کو ہونے چاہئیں۔ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے انتخابات کی تاریخ تجویز کرتے ہوئے خط میں کہا ہے کہ صدر مملکت نے 9 اگست کو وزیراعظم کے مشورے پر قومی اسمبلی تحلیل کی لہٰذا آئین کے آرٹیکل 48(5) کے تحت صدر کا اختیار ہے کہ عام انتخابات کے انعقاد کے لیے، اسمبلی کی تحلیل کی تاریخ سے 90 دنوں کے اندر تاریخ مقرر کی جائے۔ صدر مملکت نے کہا کہ آرٹیکل 48(5) کے مطابق قومی اسمبلی کے لیے عام انتخابات قومی اسمبلی کی تحلیل کی تاریخ کے 89 ویں دن یعنی پیر 6 نومبر 2023 کو ہونے چاہئیں۔انہوں نے کہا کہ آئینی ذمہ داری پوری کرنے کی خاطر چیف الیکشن کمشنر کو ملاقات کے لیے مدعو کیا گیا تاکہ آئین اور اس کے حکم کو لاگو کرنے کا طریقہ وضع کیے جا سکے لیکن چیف الیکشن کمشنر نے جواب میں برعکس مؤقف اختیار کیا کہ آئین کی اسکیم اور فریم ورک کے مطابق یہ الیکشن کمیشن کا اختیار ہے۔چیف الیکشن کمیشن کو صدر مملکت نے کہا کہ اگست میں مردم شماری کی اشاعت کے بعد حلقہ بندیوں کا عمل بھی جاری ہے اور آئین کے آرٹیکل 51(5) اور الیکشن ایکٹ کے سیکشن 17 کے تحت یہ ایک لازمی شرط ہے۔انہوں نے کہا کہ وفاقی وزارت قانون و انصاف بھی الیکشن کمیشن آف پاکستان جیسی رائے کی حامل ہے، چاروں صوبائی حکومتوں کا خیال ہے کہ انتخابات کی تاریخ کا اعلان الیکشن کمیشن آف پاکستان کا مینڈیٹ ہے۔صدر مملکت نے کہا کہ وفاق کو مضبوط بنانے، صوبوں کے درمیان اتحاد اور ہم آہنگی کے فروغ اور غیر ضروری اخراجات سے بچنے کے لیے قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کے عام انتخابات ایک ہی دن کرائے جانے پر متفق ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن کی ذمہ دادی ہے کہ وہ آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے انعقاد کے لیے آرٹیکل 51، 218، 219، 220 اور الیکشنز ایکٹ 2017 کے تحت طے شدہ تمام آئینی اور قانونی اقدامات کی پابندی کرے۔ خط میں کہا گیا کہ تمام نکات کو مدنظر رکھتے ہوئے الیکشن کمیشن آئین کی متعلقہ دفعات کے تحت صوبائی حکومتوں اور سیاسی جماعتوں کے ساتھ مشاورت اور پہلے سے زیر سماعت متعدد معاملات کے پیش نظر قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں ایک ہی دن انتخابات کرانے کے لیے اعلیٰ عدلیہ سے رہنمائی حاصل کرے۔صدر مملکت نے اس سے قبل 9 اگست کو قومی اسمبلی کی تحلیل کے بعد 23 اگست کو چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کو عام انتخابات کی مناسب تاریخ طے کرنے کے لیے ملاقات کی دعوت دی تھی۔چیف الیکشن کمشنر کے نام خط میں صدر مملکت نے کہا تھا کہ آئین پاکستان کے آرٹیکل 48 کی ذیلی شق 5 کے تحت صدر مملکت تاریخ دینے کا پابند ہے جو قومی اسمبلی کی تحلیل کے بعد عام انتخابات کے لیے 90 روز سے زیادہ نہ ہو۔صدر مملکت نے آئین کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ جب صدرقومی اسمبلی تحلیل کرتا ہے اور شق ون کا کوئی حوالہ نہیں ہوتا ہے تو وہ قومی اسمبلی کے انتخابات کے لیے تاریخ دے گا جو اسمبلی کی تحلیل کے دن کے بعد 90 روز سے طویل نہ ہو۔انہوں نے چیف الیکشن کمیشن کو کہا تھا کہ مناسب تاریخ طے کرنے کے لیے چیف الیکشن کمیشن کو صدر مملکت سے آج یا کل ملاقات کی دعوت دی جاتی ہے۔الیکشن ایکٹ کی بات کی جائے تو صدر مملکت کے اختیار اس ترمیم کے بعد واضع طور پر الیکشن کمیشن کو سپرد ہو چکے ہین ۔یہی وجہ ہے کہ صدر کے اس غیر آئینی اقدام جو ابھی انہوں نے اٹھایا نہیں صرف تجویز دی ہے کو تمام جماعتیں رد کر ہی ہیں ،مسلم لیگ ن کے عطا تارڈ،خرم دستگیر سمیت متعدد رہنما بار بار یہ بتا چکے ہیں صدر مملکت کے پاس تاریخ دینے کا اختیار نہیں ۔اگر انہوں نے تاریخ دی تو اس معاملے کو سپریم کورٹ لے کر جائیں گے