(24نیوز) قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اہم ترین اجلاس آج ہورہے ہیں جبکہ قومی اسمبلی میں آئینی ترمیم پیش کیے جانے کا بھی امکان ہے ۔
قومی اسمبلی کے آج ہونے والے اجلاس میں آئینی پیکیج اور چیف جسٹس کو توسیع دینے کے لیے حوالے سے آئینی ترامیم پیش کیے جانے کی افواہیں گرم ہیں جہاں حکومت نے ترامیم کی منظوری کے لیے درکار اکثریت حاصل کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔
قومی اسمبلی کا اجلاس آج دوپہر تین بجے طلب کیا گیا ہے جبکہ 6 نکاتی ایجنڈا بھی جاری کر دیا گیا ہے ، حکومت کی جانب سے اتحادی ارکان قومی اسمبلی و سینیٹرز کو اجلاسوں میں حاضری یقینی بنانے کے پیغامات بھجوا دیئے گئے ۔
سینیٹر اسحاق ڈار کے چیمبر سے سینیٹرز کو مطلع کردیا گیا تاہم حکومت کی جانب سے تاحال اتحادی ارکان کو قانون سازی کی نوعیت سے آگاہ نہیں کیا گیا، اہم حلقوں کے جے یو آئی ف کے ارکان پارلیمنٹ سے بھی رابطے ہوچکے ۔
چھ نکاتی ایجنڈے میں آئینی ترمیم اور قانون سازی سے متعلق کوئی ایجنڈا شامل نہیں، حکومت کی جانب سے ضمنی ایجنڈا کے طور پر آئینی ترمیم اور قانون سازی کی تحریک پیش کئے جانے کا امکان ہے۔
ایجنڈے میں آئی پی پیز کو کپیسٹی پیمنٹ اور ادائیگیوں سے متعلق ایم کیو ایم کا توجہ دلاؤ نوٹس شامل ہے، 6 نکاتی ایجنڈے میں پاکستان ترقی معدنیات کارپوریشن کی مجوزہ نجکاری سے متعلق توجہ دلاؤ نوٹس بھی شامل ہے۔
سینیٹ اجلاس کا 5 نکاتی ایجنڈا جاری کر دیا گیا، آج کے سینیٹ اجلاس میں کوئی قانون سازی ایجنڈا کا حصہ نہیں۔
پارلیمانی ذرائع کے مطابق نمبر گیم پورا ہونے پر سپلیمنٹری ایجنڈا کے طور پر آئینی ترمیمی بل ایوان میں پیش کیا جا سکتا ہے، سینیٹر اسحاق ڈار وقفہ سوالات موخر کرنے کی تحریک پیش کریں گے۔
سینیٹر ضمیر حسین گھمرو کا ضلع خیرپور میں گیس کی عدم فراہمی پر توجہ دلاؤ نوٹس ایجنڈا کا حصہ ہے۔
سینیٹرسیف اللہ ابڑو کا مختلف ڈسکوز میں چیئرمین و بورڈ ممبران کی عدم تعیناتی سے متعلق توجہ دلاؤنوٹس ایجنڈا کا حصہ ہے، اجلاس میں صدر مملکت کے مشترکہ ایوان سے خطاب کی تحریک پر بحث کی جائے گی۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق قومی اسمبلی میں آئینی ترمیم منظور کروانے کے لیے حکمران اتحاد کو دو تہائی اکثریت یعنی 224 ارکان کی حمایت حاصل کرنا ہو گی، اگر حکومتی اتحادیوں کے کُل نمبروں کا جائزہ لیں تو اس وقت حکومت میں شامل اتحادی جماعتوں کے پاس 213 ووٹ موجود ہیں۔
ان ارکان میں مسلم لیگ ن کے 111، پاکستان پیپلز پارٹی کے 68 اور متحدہ قومی موومنٹ کے 22 ووٹ شامل ہیں۔
حکمران اتحاد میں شامل پاکستان مسلم لیگ ق کے پاس 5 ووٹ ہیں، استحکام پاکستان پارٹی کے ممبران قومی اسمبلی کی تعداد چار ہے جبکہ بلوچستان عوامی پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی اور ضیا الحق پارٹی کا ایک ایک رکن بھی حکومتی اتحادیوں میں شامل ہے۔
اس وقت قومی اسمبلی میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے ارکان کی تعداد آٹھ ہے۔ اگر حکومت کو قومی اسمبلی میں مولانا فضل الرحمان کی جماعت کی حمایت حاصل ہو جاتی ہے تو اُن کے پاس ترامیم کے حق میں یہ نمبرز 221 ہو جائے گے تاہم جے یو آئی کی حمایت کے باوجود حکومت قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت حاصل نہیں کر سکتی، حکمران اتحاد کو آئینی ترمیم کے لیے قومی اسمبلی میں موجود آزاد ارکان کا تعاون بھی درکار ہو گا۔
ایوانِ بالا یعنی سینیٹ میں دو تہائی اکثریت کے ساتھ آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے حکومت کو 64 اراکین کی حمایت حاصل ہونا ضروری ہے، اگر سینیٹ میں نمبرز گیم کی بات کریں تو اس وقت سینیٹ میں حکومتی اتحادی جماعتوں کو 55 سنیٹرز کی حمایت حاصل ہے۔
اِن 55 ووٹوں میں مسلم لیگ ن کے 19 اور پاکستان پیپلز پارٹی کے 24 سینیٹرز شامل ہیں جبکہ اُنہیں بلوچستان عوامی پارٹی کے چار،متحدہ قومی موومنٹ کے تین اور پانچ آزاد اراکین کی بھی حمایت حاصل ہے۔
سینیٹ میں حکمراں اتحاد کو آئینی ترمیم کے لیے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے پانچ ارکان سمیت مزید چار ووٹوں کی بھی ضرورت ہو گی۔
پارلیمان میں ممکنہ آئینی ترمیم کے لیے حکومتی اتحادیوں نے اپنے تمام اراکین قومی اسمبلی اور سینیٹ کو اسلام آباد میں ہی رہنے کی ہدایت جاری کی ہے۔