حضرت ایوب علیہ السلام کےصبر کا انعام
Stay tuned with 24 News HD Android App
نبی آخر الزماں حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی امت ہونے کا شرف کسی بھی مسلمان کیلئے راحت کا ایک نہ ختم ہونے والے سلسلے جیسا ہے ، یہی راحت اور اطمینان ایک غمگین مسلمان کے غم ختم کر دیتا ہے کیونکہ بطور مسلمان ہمارا عقیدہ ہے کہ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ کے آخری نبی حضرت محمد ﷺہی اللہ تعالیٰ سے شفاعت کی درخواست کریں گے۔
آخری نبیﷺ کی امت ہونے کی وجہ سے ہم اللہ تعالیٰ کی پیاری امت ہیں اور اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ہمیں بہت سی نعمتوں اور صلاحیتوں سے نوازا ہے ،انہیں نعمتوں میں سے ایک نعمت علم ہے ، جو کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے حبیب ﷺ کے ذریعے ہم تک پہنچایا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے نبی کی امت اور قیامت تک کے مسلمانوں کیلئے قرآن مجید اور حضور کی ذات مبارکہ کے ذریعے ہدایت کا انتظام فرمایا ہے ، اللہ تعالیٰ جتنا اپنے بندے سے پیار کرتا ہے اتنا ہی اس کا امتحان بھی لیتا ہے ، حدیث پاک میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ لوگوں سے میں سے سب سے ابتلا و آزمائش میں انبیا ہیں پھر وہ لوگ جو انبیاء کے طریقوں پر چلتے ہوں گے ، اس طرح درجہ بدرجہ لوگوں کی آزمائش ہوتی ہے،اور آپ ﷺ نے ارشاد فرمایاکہ کوئی آدمی دین میں جتنا زیادہ مضبوط ہو گا اتنا ہی اس کا زیادہ سخت امتحان ہوتا ہے ۔
ایسا ہی امتحان اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر حضرت ایوب علیہ السلام سے بھی لیا ، حضرت ایوب علیہ السلام کے نام و نسب کی بات کی جائے تو محمد بن اسحاق کہتے ہیں کہ یہ روم میں سے ایک شخص ہیں ان کا سلسلہ نسب یوں ہے، ایوب بن موص بن رزاخ بن العیص بن اسحاق بن ابراہیم الخلیل علیہ السلام بتایا ہے۔
اس بات کی گواہی خود اللہ تعالیٰ نے قرآن میں بھی دی ہے، سورہ الانعام میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ومن ذری کی ضمیر ابراہیم علیہ السلام کی طرف لوٹتی ہے نہ کہ نوح علیہ السلام کی طرف، حضرت ایوب علیہ السلام انبیا اکرام علیہاسلام میں سے ہیں کہ جن کی طر ف وحی بھیجنے کی صراحت اللہ تعالیٰ نے اپنے اس فرمان میں کی ہے، ” ہم نے تمہاری طرف اسی طرح وحی بھیجی ہے جس طرح نوح او ران سے پیچھلے پیغمبروں کی طرف بھیجی تھی اور ابراہیم اور اسحٰق اور یعقوب اور اولاد یعقوب اورعیسیٰ اور ایوب اور یونس اور ہاروں اور سلیمان علیہ السلام ۔
تاریخ و تفسیر کے علماءنے لکھا ہے کہ آپ علیہ السلام بہت مالدار آدمی تھے آپ کے مال مویشی نوکر چاکر اور کافی زمین تھی ارض حوران کے ثنیہ کا علاقہ آپ کی ملکیت تھا، ابن عسا کر رحمتہ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ یہ سب زمین آپ کی ذاتی ملکتی تھی اورآپ کے اہل و عیال کثیر تعداد میں تھے ، ”پھر سب کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے واپس لے لیا گیا، اور آپ کے مختلف جسمانی تکالیف میں مبتلا ہو گئے دل اور زبان کے سوا جسم کا کوئی حصہ اور عضو صحیح سالم نہ رہا ، دل اور زبان کے ساتھ آپ اللہ تعالیٰ کی یادمیں مصروف رہتے تھے اور صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا ، آپ ؑ نے ان تمام جسمانی وہ مالی مصائب میں اللہ سے ثواب کی امید لگائے رکھی، اور جب تکلیف بڑھ گئی اور لوگ آپ سے دور ہو گئے صرف بیوی ہی پاس رہیں جو اللہ کے حکم سے آپکی خدمت اور خوراک کا انتظام کرتیں۔
آزمائش و ابتلا کی ہر قسم سے سابقہ پڑتا ہے اور آپ کو صبرو ثواب اور حمدو شکر میں مزید پختہ کر دیا ، حتیٰ کہ آپ کا صبر ضرب المثل بن گیا او رآپ پر آنے والے مصائب بھی ضرب المثل بن گئے، کیونکہ وہ بھی اپنی مثل آپ تھے۔ حضرت وہب بن منبہ ؒ کا خیال ہے کہ تین سال مکمل آپ اس مرض میں مبتلا رہے ، حضرت انس ؓ فرماتے ہیں سات سال چند ماہ کا عرصہ ہے ، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی تکلیف کو دور فرمایا اور اجرو ثواب سے نوازا اور آپ کی تعریف فرمائی۔
حضرت ایوب علیہ السلام صحت یابی کے بعد 70 برس تک زندہ رہے اور دین حنیف کیلئے محنت کرتے رہے ، آپ کے بعد لوگوں نے دین ابراہیم کو تبدیل کر دیا۔
اقتباس: قصص الانبیا از امام حافظ عماد الدین ابواالفداابن کثیرؒ
نوٹ(ایک مسلمان جان بوجھ کرقرآن مجید،احادیث رسولﷺ اور دینی وعلمی کتابوں میں غلطی کرنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا بھول ہونے والی غلطیوں کی تصحیح واملاح کیلئے ہم سے رابطہ کیا جا سکتا ہے )