(ویب ڈیسک) منکی پاکس وائرس کی ایک بار پھر پاکستان منتقلی کا خدشہ پیدا ہوگیا۔
نجی ٹی وی کے مطابق بارڈر ہیلتھ سروسز کی جانب سے منکی پاکس وائرس سے متعلق انتباہی مراسلہ جاری کیا گیا ہے جس کے پیش نظر ملک بھر کے بارڈر کراسنگ پوائنٹس پر ہائی الرٹ کردیا گیا ہے۔
ذرائع کا بتانا ہے کہ پاکستان میں تاحال منکی پاکس کے 9 کیسز رپورٹ ہوچکے ہیں جس کے نتیجے میں ایک شخص کی موت ہوئی۔
بی ایچ ایس ذرائع کے مطابق پاکستان میں تمام منکی پاکس کیسز خلیجی ممالک سے منتقل ہوئے ہیں جس کے بعد بیرون ملک سے آنے والے مسافروں کی منکی پاکس اسکریننگ شروع کردی گئی ہے۔
مراسلے میں کہا گیا ہے کہ منکی پاکس کے مشتبہ مریضوں کو آئیسولیٹ کیا جائے اور مریض کی اطلاع بارڈر ہیلتھ سروسز کو دی جائے۔بی ایچ ایس کے مراسلے میں ہدایت کی گئی ہے کہ ایئرپورٹ پر جلدی زخم والے غیرملکی مسافر کو آئسولیٹ کیا جائے۔
منکی پاکس کیا ہے؟
منکی پاکس دراصل ایک ایسا وائرس ہے جو بنیادی طور پر جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوتا ہے۔ منکی پاکس، وائرس کے ’پاکس وائری ڈائے‘ (Poxviridae) فیملی سے تعلق رکھتا ہے، اس فیملی کو مزید 2 ذیلی خاندانوں میں تقسیم کیا گیا ہے جن میں 22 انواع ہیں اور مجموعی طور پر اس فیملی میں وائرس کی 83 اقسام ہیں۔
اس فیملی سے تعلق رکھنے والے وائرس میں ’اسمال پاکس‘ یعنی چیچک بھی شامل ہے اور علامات میں قریب ترین ہونے کی وجہ سے منکی پاکس کو اس کا کزن بھی کہا جاتا ہے۔
منکی پاکس کا نقطہ آغاز افریقا بتایا جاتا ہے۔ منکی پاکس کی دو اقسام دنیا میں موجود ہیں جن میں سے ایک قسم مغربی افریقا میں جبکہ دوسری وسطی افریقا میں کانگو طاس کے اطراف موجود ممالک میں پائی جاتی ہے۔
دنیا میں انسانوں میں منکی پاکس کا پہلا تصدیق شدہ کیس 1970 میں افریقی ملک ڈیموکریٹک ری پبلک آف کانگو میں ایک بچے میں سامنے آیا تھا۔
مرض شدت اختیار کرجائے تو منکی پاکس جان لیوا بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ اس کی جن دو اقسام کا ہم نے ذکر کیا تھا ان میں مغربی افریقی قسم کی شدت کانگو طاس کے مقابلے میں کم ہوتی ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق مغربی افریقا میں پائے جانے والے منکی پاکس وائرس میں شرح اموات 3.6 فیصد ہے جبکہ کانگو طاس ریجن کے منکی پاکس وائرس میں شرح اموات 10.6 فیصد ہے۔اچھی بات یہ ہے کہ امریکا اور یورپی ممالک میں کم شدت والے منکی پاکس وائرس کے کیسز سامنے آئے ہیں۔