تیرہ سالوں پہ محیظ خانہ جنگی کے بعد بلآخر 8 دسمبر کو اپوزیشن جماعتوں کے مسلح اتحاد ”ہیت التحریر“ نے شام کے شہر دمشق پر قبضہ کر لیا ، جس کے ساتھ ہی طویل عرصے تک حکمران رہنے والے شامی صدر بشار الاسد ملک چھوڑ کر روس فرار ہو گئے ۔ عالمی طاقتیں خطہ کو شورش سے بچانے اور اسرائیل کی بقاء کی خاطر بشارالاسد کی آہن پوش حکمرانی کو نہایت محتاط انداز میں تحلیل کرنا چاہتی تھیں یعنی ایک ایسا تدریجی زوال جو مکمل طور پہ عالمی طاقتوں کی پیچیدہ کوارڈینشن کے تابع رہے ۔ اسی مقصد کے حصول کی خاطر شام کی تراشیدہ خانہ جنگی کے 30 ماہ بعد 2014 میں روس اور امریکہ کے مابین شام کے کیمائی ہتھیاروں کو ٹھکانے لگانے کے فریم ورک ایگریمنٹ پہ عمل درآمد کے بعد اسرائیل میں بشارالاسد کے انجام بارے بحث و تمحیص شروع ہو گئی تھی ، اس وقت اسرائیلی ناردرن کمانڈ کے جنرل یائرگولان نے پیشگوئی کی تھی کہ مجموعی طور پہ ریاست پہ کنٹرول کھو دینے کے باوجود شامی صدر مزید کئی سالوں تک قتدار میں رہیں گے۔
انہوں نے کہا تھا کہ شورش سے قبل شام توانا حریف کی مانند ہمارے سامنے کھڑا تھا اور دمشق کے مضافات میں سیاسی مخالفین کے خلاف زہریلی گیس کے استعمال سے ہونے والی ہلاکتوں کے بعد امریکی فضائیہ کے ممکنہ حملوں کے ردعمل میں شام کے اسرائیل پہ حملہ زن ہونے کے خطرات موجود تھے تاہم فریم ورک ایگریمنٹ کے تحت کیمائی ہتھیار سرنڈر کرنے کے بعد شام اب اسرائیل کے لئے سنجیدہ خطرہ نہیں رہا “ ۔ یاد رہے کہ 21 اگست 2013 کو شامی حکومت نے دمشق کے مضافات میں مزاحمتی گروپوں کے خلاف زہریلی گیس استعمال کرکے 1400 سے زیادہ شہری مار ڈالے تھے، شہریوں پہ کیمائی ہتھیاروں کے استعمال کے بعد امریکہ نے شامی تنصیبات پہ فضائی حملوں کی دھمکی دیکر ستمر 2013 میں روسی صدر پوتن کی وساطت سے ایک ایسا فریم ورک معاہدہ طے کرا لیا،جس کے تحت جون 2014 میں شام کے1290 میٹرک ٹن مہلک کیمیائی ہتھیاروں کو بحیرہ روم کے عالمی پانیوں میں ٹھکانے لگانے میں کامیابی حاصل کر لی گئی ، شامی تنازعہ کے ابتدائی تین سالوں میں یہی وہ حتمی پیش رفت تھی جس نے بشار الاسد کے انجام کا تعین کر دیا تھا ۔
مغربی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ دسمبر 2015 میں ، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے اپنی 2254 قرارداد میں 2012 کے جنیوا کمیونیک کی دوبارہ توثیق کی تھی ، کوفی عنان،جو اس وقت کے اقوام متحدہ اور لیگ آف عرب اسٹیٹس کے شام کے لیے مشترکہ خصوصی ایلچی تھے، نے ایسے ایکشن گروپ کی سربراہی کی جس میں امریکہ، فرانس، برطانیہ، روس، چین، ترکی، عراق، قطر اور کویت کے وزرائے خارجہ سمیت یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ ، اقوام متحدہ اور ایل اے ایس کے سیکرٹری جنرل بھی شامل تھے ، اسی ایکشن گروپ کے آخری مکالمے میں شام میں اقتدار کی منتقلی کے لئے رہنما خطوط کا خاکہ پیش کیا گیا لیکن عالمی قیادت اُسے عملی جامہ پہنانے میں ناکام رہی ۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل اور جنیوا میں موجود شام کے لیے ان کے خصوصی ایلچی کو جنیوا کمیونیک اور قرارداد نمبر 2254 کو فعال کرانے کے لئے فوری طور پر دمشق کا رخ کرنا چاہیے ۔ اولین کام عبوری گورننگ باڈی کا قیام ہو جس میں وہ لوگ ، جو بصورت دیگر لڑنے والے دھڑوں میں بٹ سکتے ہیں ، شامل ہوں کیونکہ اگر شام پھر افراتفری کا شکار ہوا تو بیرونی عناصر متحارب گروپوں کے مابین چھوٹی لڑائیوں کو بھڑکا دیں گے جیسا کہ حالیہ برسوں میں سوڈان ، یمن ، لیبیا اور ایتھوپیا میں دیکھا گیا ۔ بظاہر یہی لگتا ہے کہ عراق میں رجیم توڑنے کے نتائج سے حاصل کردہ اسباق کے پیش نظر امریکی ، بشارالاسد کے اچانک انہدام سے پریشان ہیں ، منتخب صدر ٹرمپ نے کہا ہے کہ مڈل ایسٹ میں ہماری کامیابیاں ریورس اور اسرائیل کی سلامتی کو درپیش خطرات بڑھ سکتے ہیں اور ممکنہ سماجی تبدیلیوں کے لئے داعش جیسی متنوع تخلیقات بھی بلآخر اسلام کی دوبارہ بحالی کا وسیلہ بنیں گی۔
ٹرمپ نے کہا کہ افغانستان سے ہم معاہدہ کے تحت نکلے اس لئے افغانستان دنیا کے لئے خطرہ نہیں بنا لیکن شام سے روسی فورسیسز کا اچانک انخلاء تباہ کن نتائج کا سبب بنے گا ۔ بلاد عرب سے ایران کی پسپائی اور حزب اللہ جیسے عسکری گروہ کے خاتمہ کے بعد مڈل ایسٹ کا منظرنامہ بدل رہا ہے ۔ اسد کے زوال کے بعد شام میں جوش و خروش ہے لیکن دو دہائیوں قبل اسی طرح کے مناظر پورے عراق میں اس وقت دیکھنے کو ملے تھے جب امریکی فورسیسز نے صدام حسین کو معزول کر دیا تھا تاہم صدام کے مابعد آج تک عراق میں سرکاری اتھارٹی کی مکمل بحالی ممکن نہ ہو سکی چنانچہ عراقی اس بات سے محتاط ہیں اور جانتے ہیں کہ آگے کیا ہو سکتا ہے کیونکہ آج شامی اپوزیشن کے مسلح گروہوں کا چہرہ بھی ایسا شخص ہے جس نے پہلے القاعدہ اور بعد میں دولت اسلامیہ کے رکن کے طور پر عراق میں غیر ملکی فورسیسز کے خلاف جارحانہ مزاحمت کے دوران امریکہ نواز عراقیوں کو مہیب حملوں کا نشانہ بنایا تھا ۔ عراق کے شیعہ مسلح گروہ جنہوں نے کبھی ایران کے کہنے پر بشار الاسد کی مدد کی تھی، واپس پلٹ چکے اور عراقی حکومت نے دمشق سے اپنے سفارت کاروں کو بھی واپس بلا کر پوری توجہ اپنے داخلی استحکام پہ مرکوز کر لی ۔ اگرچہ بہت سے تجزیہ کاروں نے عراق ہی میں شام کے مستقبل کے لیے ایک جیسی مماثلتیں تلاش کی ہیں یعنی دونوں ممالک کئی دہائیوں سے بعث پارٹی کے تحت بیرونی مداخلتوں کا شکار رہنے کے علاوہ متنوع آبادی رکھتے تھے ۔ عراق میں آج تک انتباہات موجود ہیں ،جس میں عبوری انصاف کو نظر انداز نہ کرنا، نئے آئین کی تخلیق میں تاخیر اور صدام کے اثرات کو مٹانے کی ضرورت سے اغماض شامل ہیں ۔
ضرورپڑھیں:پیپلز پارٹی وفاقی کابینہ کا پہلے بھی حصہ نہیں تھی، آئندہ بھی نہیں ہوگی، یوسف رضا گیلانی
علی ہذالقیاس ، مشرق وسطیٰ میں انتہائی سفاک آمریت کے غیر متوقع خاتمے کا ملک کے اندر اور باہر لاکھوں شامیوں نے والہانہ استقبال کیا، بعثی حکومت جس نے شام پر 1963 سے مسلسل حکمرانی کی ، گزشتہ پانچ دہائیوں سے اسد خاندان کی استبداد کے مخصوص برانڈ کے تحت، نہ صرف شامی فوج کو تھکا دیا بلکہ اسے ایران کے علاقائی عزائم کے لیے برسرپیکار پراکسیز کے لانچنگ پیڈ میں بدل دیا تھا لیکن شامیوں کے لیے ، مشکل کام اب شروع ہو گا ، ملک کے اندر اور باہر اپوزیشن قوتوں کو حکمرانی کا کچھ تجربہ ضرور ہو گا مگر وہ معاشرے کو متشکل کرنے والے طبقات کے مابین مفاہمت کے آرٹ سے ناواقف ہیں ۔ ہیت التحریر ، جو اپوزیشن میں سرکردہ قوت ہے، شمالی سرحدی صوبے ادلب پر حکومت کر رہی ہے، جہاں 30 لاکھ سے زیادہ شامی باشندے انکی حکومت کے تحت رہتے ہیں ۔ یہ ایک موثر جنگی قوت ہے لیکن جہادی جڑوں اور القاعدہ کی بھاری وارثت کے ساتھ ہیت التحریر شامی معاشرے کے متنوع سیاسی اور سماجی رنگوں کو اپنانے کی صلاحیت نہیں رکھتی اور خوش قسمتی سے اس کے رہنما ابو محمد الجولانی اس بات کو سمجھتے ہیں ۔ امریکہ کے اتحادی کرد اور ترکی کے حمایت یافتہ دوسرے سنی عرب ملیشیا گروپس جنہوں نے اسد رجیم کے خاتمے میں مدد دی ، وہ شمالی شام میں اپنے الگ الگ انکلیو چلا رہے ہیں ، انہیں اب وسیع البنیاد عبوری حکومت کا حصہ بنانے کے لئے الجولانی کو سیاسی اور نظریاتی لچک دکھانا پڑے گی ۔ عالمی طاقتوں کے لئے اگرچہ دمشق میں گورننس پروجیکٹ میں اسلام پسندوں کے اثر و رسوخ کو روکنا آسان نہیں ہوگا لیکن سیاسی عمل میں ان کی شمولیت اور ایک سال کے اندر عام انتخابات کا انعقاد نیز انقرہ کا اثر و رسوخ انہیں معتدل بنا سکتا ہے ۔ بہرحال حالات کی کوکھ سے جو کچھ بھی نمودار ہو گا وہ بشار الاسد کے شام سے کہیں بہتر ہو گا ۔ مغرب کی شام میں دلچسپی برقرار رہے گی ، نہ صرف اسلامک اسٹیٹ کی بحالی کے مفروضوں سے لڑنے کے لئے بلکہ شام کو اسرائیل کی سلامتی کی ضمانت دینے والے ملک کے طور پر استوار کرنے کے علاوہ مغربی طاقتیں مڈل ایسٹ میں روسی اثر و رسوخ کو محدود کرنے کی پالیسی کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش بھی کریں گی ۔ روس کے لیے اس کا ہیمیمیم ایئر بیس اور طرطوس نیول بیس اہم ہیں ، جو مشرق وسطیٰ میں اسکی فوجی موجودگی کے بنیادی مراکز ہیں ۔ بحیرہ روم میں روس کی واحد ایندھن بھرنے والے اڈے کے طور پر طرطوس روسی فوج کا تزویری مرکز اور نیٹو کے جنوبی کنارے پر پریشان کن فوجی اڈا ہے کیونکہ شام میں واقع یہی روسی اڈے پورے افریقہ میں روس کی افریقہ کور کو سپلائی فراہم کرنے کا وسیلہ ہیں ، اگرچہ روس کے لیبیا میں بھی افریقن کور کو سپلائی دینے والے اڈے موجود ہیں لیکن شامی اڈے ختم ہو جانے کی صورت میں اس کا لاجسٹک نظام محدود ہو جائے گا ۔
اس لئے لہجے کو نرم کرنے کے بعد ماسکو اڈوں تک اپنی رسائی کو محفوظ بنانے کی خاطر بات چیت کے لیے ہیت التحریر کی قیادت تک پہنچنے کی کوشش میں سرگرداں ہے کیونکہ فی الوقت ایچ ٹی ایس بین الاقوامی قانونی حیثیت حاصل کرنے کے لئے بے چین ہونے کی وجہ سے عالمی طاقتوں کو مثبت اشارے دے رہی ہے ۔ البتہ اس غیرمعمولی ٹوٹ پھوٹ نے ایران کی مذہبی مقتدرہ کے مستقبل کو مخدوش بنا دیا، 1980 کی دہائی کے آخر میں عراق کے ساتھ طویل جنگ کے خاتمہ اور روح اللہ خمینی کی موت کے بعد قیادت منتقلی کی غیریقینی صورت حال کے بعد آج پھر موجودہ قیادت کے لیے اپنی بقا سے زیادہ کوئی چیز اہمیت نہیں رکھتی چنانچہ عدم تحفظ کے دائمی احساس کے پیش نظر، ایرانی رہنما اپنی موجودہ ہیت میں پیدا ہونے والے خطرات سے خوفزدہ ہیں ، وہ جانتے ہیں کہ ان کے اپنے شہری تھیوکریسی کے عقوبت خانوں کے دروازے کھولنے کا خواب دیکھتے ہیں جیسا کہ آج شامی کر رہے ہیں ۔ حیرت انگیز طور پر مڈل ایسٹ کے طول و ارض سے ایرانی پراکسیز کی سرعت پذیر پسائی غیر معمولی پیش رفت اور نئے مشرق وسطی کے طلوع کی نوید ثابت ہوئی ، اس سے نہ صرف لبنان ، یمن اور سعودیہ بلکہ افغانستان سے لیکر پاکستان تک فرقہ وارانہ جنگوں کے آتش کدے بجھ سکتے ہیں ۔
نوٹ:بلاگر کے ذاتی خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ایڈیٹر