(24نیوز)اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا ہے کہ میں نے اپنی آنکھوں سے بار کے صدر اورسیکرٹری کو بے بس دیکھا، اگر ایسا کسی سیاسی جماعت کے لوگوں نے حملہ کیا ہوتا تو ریاست ان کے ساتھ کیا کرتی؟اسلام آباد ہائیکورٹ حملے میں ملوث وکلا کو مثالی سزا ملنی چاہیے۔
وکلا حملے سے متعلق کیس کی اسلام آباد ہائی کورٹ میں سماعت ہوئی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ بار کے سیکرٹری سہیل اکبر چودھری عدالت کے سامنے پیش ہوئے اور جوڈیشل کمیشن تشکیل دینے کی استدعا کی۔چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دئیے کہ جنہوں نے ہائیکورٹ پر حملہ کیا ان کی نشاندہی بار کرے تاکہ کسی بے قصور کو ہراساں نا کیا جا سکے، آپ سب کو معلوم ہے کہ یہ سب کس نے کیا، اس کے لئے کسی کمیشن کی ضرورت نہیں۔ چیف جسٹس نے مزید کہا کہ ہائی کورٹ پر حملہ کرنے والے سارے بار کے وکلا تھے آدھے سے زائد کو میں جانتا ہوں، جنہوں نے پانچ گھنٹے ججز کو یرغمال رکھا وہ اس انتہائی گھناؤنے جرم کے مرتکب ہوئے ہیں، یہ واقعہ بالکل غلط ہوا ہے اس میں ملوث لوگوں کو مثالی سزا ملنی چاہیے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ چیف جسٹس آف پاکستان کا بھی فون آیا تھا، مجھے کہا گیا کہ کارروائی کے لئے تیار ہیں، لیکن میں نے چیف جسٹس پاکستان کو بھی بتایا کہ کوئی ایکشن لے کر ہائیکورٹ کو میدان جنگ نہیں بننے دوں گا، میں نے کہا کہ آپ آئیں اور آ کر بے شک مجھے مار دیں مگر ایکشن لے کر اس کو تماشہ نہیں بناؤں گا، ایک سو لوگوں کے ایکٹ کی وجہ سے بار کی عزت داؤ پر ہے، سب لوگ یونیفارم میں تھے بار کی بھی عزت اس میں ہے کہ ان لوگوں کی نشاندہی کریں۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے مزید کہا کہ جے آئی ٹی نے رپورٹ دی ہے کہ وکلا اور بار ان سے تعاون نہیں کر رہے، اس وقت ذمہ داری بارز کی ہے، میں نے اپنی آنکھوں سے بار کے صدر اورسیکرٹری کو بے بس دیکھا، اگر ایسا کسی سیاسی جماعت کے لوگوں نے کیا ہوتا تو ریاست ان کے ساتھ کیا کرتی؟، مجھ کو جب یرغمال رکھا گیا تو میں اس کے لئے بھی تیار بھی تھا کہ زیادہ سے زیادہ کیا کریں گے مار دیں گے۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے وکلا کی میڈیا سے بدتمیزی پر بھی اظہار تشویش کرتے ہوئے کہا کہ میڈیا والوں کو مارا گیا اور ان کی ویڈیوز بھی ڈیلیٹ کرائی گئیں، یہ رویہ بالکل برداشت نہیں کیا جائے گا، آپ کو معلوم ہے کہ وہ پلاننگ کے ساتھ آئے تھے اور باہر میڈیا والوں کو مارا اور ویڈیوز ڈیلیٹ کی ہیں، عدالت پہلے ہی ہدایات جاری کر چکی ہے کہ صرف ان وکلا کے خلاف کارروائی کریں جو واقعہ میں ملوث ہیں، جن وکلا پر صرف شبہ ہے ان کے خلاف کارروائی سے روک دیا ہے، چیف جسٹس کو پانچ گھنٹے تک حراست میں رکھا گیا مگر مجھے کوئی غصہ نہیں ہے۔اس موقع پر شیر افضل ایڈووکیٹ نے کہا کہ عدالت عالیہ کے ساتھ جو کچھ ہوا اس کا ہم سب کو دکھ ہے۔
چیف جسٹس ہائیکورٹ اطہر من اللہ نے کہا کہ صرف میرا ایشو نہیں، آٹھ دیگر ججز کو بھی محصور رکھا گیا، یہ ادارے کا معاملہ ہے۔ وکیل راجہ رضوان عباسی نے عدالت کے سامنے بیان دیا کہ ہم سب بہت شرمندہ ہیں۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کوئی کمپرومائز نہیں ہو گا اگر مگر نہیں چلے گا قانون اپنا راستہ خود بنائے گا۔عدالت نے ہائی کورٹ بار کے سیکرٹری سہیل چودھری کو ملوث ملزموں کی نشاندہی کرنے کی ہدایت کردی۔