بھارت کشمیر کی خصوصی حیثیت بحال کرے۔فرانس میں سفیر کی تعیناتی پر کام ہو رہا ہے۔عمران خان
Stay tuned with 24 News HD Android App
( نیوز ایجنسی)وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ افغانستان میں امن خطے کے امن کےلئے ناگزیر ہے، افغانستان سے تین گروپ پاکستان کے خلاف سرگرم ہیں جنہیں پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کےلئے استعمال کیا جارہا ہے،پاکستان افغانستان کو تنہا تسلیم نہیں کرسکتا، افغان حکومت کو تسلیم کرلینا چاہئے ،کشمیر کا براہ راست تعلق پاکستان سے ہے، خطے میں امن کے لئے بھارت سے بات ہوسکتی ہے ،پہلے بھارت کو کشمیر پر لیا گیا یک طرفہ اقدام واپس لینا ہوگا اس اقدام کے بغیر بھارت سے کوئی بات کرنا کشمیریوں سے غداری کے مترادف ہوگا ،فرانس پاکستان کیلئے بہت اہم ملک ہے، فرانس کے صدر سے دو طرفہ تعلقات پر بات کرنا چاہوں گا،ہم امن میں امریکا کے شرکت دار ہیں تنازعات میں نہیں، پاکستان کے عوام کے تحفظ کی ذمہ د اری یہاں کی قیادت کی ہے امریکا کی نہیں۔ منگل کو فرانسیسی اخبار لی فگارو کو انٹرویو دیتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ ہندوستان میں جوکچھ ہورہاہے اس پر وہ اپنے تمام ہندوستانی دوستوں کیلئے پریشان ہیں ، ایک تعلیم یافتہ ہندوستانی کیلئے اس وقت ہندوستان میں پلنابڑھناباعث تشویش ہوگا۔ افغانستان سے متعلق سوال پر وزیراعظم نے کہا کہ پہلے پاکستان افغانستان کے اردگردموجود تمام علاقائی ممالک کوساتھ لیکرچلنا چاہتاہے، ہم ان کے ساتھ مل کرمشترکہ قدم اٹھاناچاہتے ہیں،اگرپاکستان تنہاکوئی قدم اٹھاتاہے تو اس سے پاکستان پربہت زیادہ بین الاقوامی دباﺅآجائےگا، پاکستان اس وقت معاشی طور پر اپنے پیروں پرکھڑاہونے کی کوشش کررہاہے، جب ہماری حکومت آئی توملک دیوالیہ تھا، ہمارے پاس واجبات اداکرنے کیلئے پیسے نہیں تھے، ہماری توجہ کامرکز اس وقت معیشت ہے اورہم اپنی معیشت کواسی صورت میں اوپرلے جاسکتے ہیں جب دنیا کے ساتھ ہمارے اچھے تعلقات ہوں۔وزیراعظم نے کہاکہ جب پچھلی بارطالبان کی حکومت تھی تو ان کاشمالی اتحاد کے ساتھ تنازعہ چل رہاتھا۔افغانستان میں اب کوئی تصادم نہیں جوکہ 40 سال بعدپہلاموقع ہے، سوائے چندچھوٹی موٹی دہشت گردتنظیموں کے ملک تنازعات سے پاک ہے،افغانستان میں جتنازیادہ استحکام ہوگا، اتناہی ان بین الاقوامی دہشت گردوں کے پنپنے کاامکان کم ہوگا لہٰذامیں محسوس کرتا ہوں کہ آگے بڑھنے کاواحدراستہ طالبان حکومت کوتسلیم کرناہے، پاکستان اکیلاایسانہیں کرسکتا، ہم تمام علاقائی ممالک سے مشاورت کررہے ہیں لیکن افغانستان کے عوام کی فلاح کیلئے جلد یابدیرانہیں افغانستان کوتسلیم کرنا پڑے ہوگا۔ وزیراعظم نے کہاکہ اس بات پربین الاقوامی اتفاق رائے ہے افغانستان میں ایک جامع حکومت ہونی چاہئے، دوسراانسانی حقوق خاص طورپرخواتین کے حقوق کاتحفظ ہونا چاہئے ، طالبان کی حکومت نے دونوں کاوعدہ کیاہے، انہوں نے انسانی حقوق اورانہوں نے جامع حکومت کی بات کی ہے۔اب سوال یہ ہے کہ طالبان ایساکیا کرے جس سے دنیامطمئن ہوں کہ طالبان نے شرائط پوری کردی ہے، اس وقت یہ صورتحال ہے کہ وہ اب تک دونوں شرائط پرراضی ہوچکے ہیں۔وزیراعظم نے کہاکہ امیرمتقی کے دورہ میں کوئی ٹھوس یقین دہانی تو نہیں کرائی مگرانہوں نے اس اصول پراتفاق کیا کہ وہ اس بابت آگے کیسے بڑھیں گے۔انہوں نے کہا 2001 میں پاکستان ان تین ممالک میں سے ایک تھاجنہوں نے افغانستان کوتسلیم کررکھاتھا،اس کے باوجود جب پاکستان نے طالبان سے یہ کہنے کی کوشش کی کہ وہ اسامہ بن لادن کو امریکاکے حوالے کردے تو انہوں نے صاف انکار کردیا۔ اس لئے ایک حد تک بیرونی دباﺅ کسی حکومت پر اثر اندازہو سکتا ہے۔ خاص طور پر ایسی حکومت پر جو طالبان کی طرح بہت زیادہ آزادی پسند ہے۔ صرف متنبہ کرنے کے لئے اگر کوئی یہ سوچتا ہے کہ اس عمل کے لئے آپ انہیں مجبور کر سکتے ہیں تو ایسا نہیں ہونے والا ہے اور ہمیں توقع بھی نہیں کرنی چاہیے کیونکہ خواتین کے حقوق کے متعلق افغانستان کے لوگ کیاسوچتے ہیں اور مغرب میں خواتین کو کیا حقوق حاصل ہیں ان دونوں کے درمیان ایک بڑی خلا ہے۔ خواتین کے لئے مغربی طرزکے حقوق کی اگرکوئی توقع کررہاہوں توافغانستان میں ایسا نہیں ہوگا تاہم وہ اس بات سے متفق ہے کہ لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے کی اجازت ہونی چاہیے۔ کم از کم یہ ایک ایسا نقطہ ہے جس پر جب وہ یہاں آئے تو انہوں نے اتفاق کیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ دو خدشات موجود ہیں پہلا تو پناہ گزین ہیں۔ پاکستان میں پہلے ہی چالیس لاکھ سے زیادہ پناہ گزین موجود ہیں اور تشویش ناک بات یہ ہے کہ اگر افغانستان میں حالات بگڑتے ہیں ، اگر یہ انسانی بحران بد تر ہوتا ہے تو ملک میں پناہ گزینوں کاایک سیلاب آئے گا۔ پاکستان مزید پناہ گزینوں کا متحمل نہیں ہو سکتا،ہمارے پاس وسائل نہیں ہیں، دوسرا یہ کہ سقوط کابل سے قبل افغانستان سے تین گروہ کارروائیاں کررہے تھے پہلے نمبر پر ٹی ٹی پی پاکستانی طالبان، دوسرا بلوچ دہشت گرد تھے اور تیسرے نمبر پر داعش تھی، اس لئے ہمارا پختہ یقین ہے کہ جتنی زیادہ مستحکم افغان حکومت ہوتی جائےگی ان گروہوں کو وہاں سے کارروائیاں کرنے کے مواقع کم ملیں گے، اس لئے ہمارے پاس مضبوط دلائل ہیں۔ پاکستان کے پاس افغانستان میں استحکام کی مضبوط ترین دلیل ممکنہ مہاجرین اور دہشت گردی ہے۔طالبان حکومت کی جانب سے اپنی سر زمین کو دیگر ممالک کے خلاف دہشت گردی کے استعمال نہ کرنے کے سوال پر وزیراعظم نے کہا کہ انہیں طالبان حکومت پر بھروسہ ہے میرے خیال میں جس نے بھی افغان طالبان کے ساتھ کام کیا ، میں سال 2000 کی بات کررہا ہوں، ایک بات آپ کہہ سکتے ہیں کہ وہ اپنی زبان پر قائم رہتے ہیں، جب ٹرک ڈرائیور اور دیگر لوگ طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد افغانستان جایا کرتے تھے تو وہ بتاتے کے قبل ازیں ہر پچاس میل کے بعد ایک جنگجو ان سے بھتہ لیتا تھا۔ جب طالبان اقتدار میں آئے تو بنیادی طورپر ہر جگہ مکمل امن ہو گیا اور جب وہ تحفظ کی ضمانت دیتے تو آپ کو تحفظ ملتا تھالہٰذا ہمیں یقین ہے کہ وہ ایسا کریں گے کیونکہ یہ ان کے مفاد میں ہے،جو طالبان حکومت سب سے زیادہ چاہے گی وہ اپنے لوگوں کی دیکھ بھال ہے اور وہ ان کی دیکھ بھال صرف اسی صورت کرسکتے ہیں کہ وہاں امن ہو اور تجارت ہو، اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ نہ صرف ہماری حکومت بلکہ تمام ہمسایہ ممال کا ماننا ہے کہ افغانستان میں استحکام وسطی ایشیائی ممالک کے لئے انتہائی اہم ہے۔پاکستان اور وسطی ایشیائی ممالک کے نقطہ نظر سے پاکستان افغانستان کے راستے وسطی ایشیاءسے جڑ جاتا ہے،وسطی ایشیائی ریاستیں بحرہندسے جڑ جاتی ہے جہاں سے وہ اپنا سامان باہر لے جاسکتے ہیں لہٰذا ہم سب ان کے استحکام میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ ایک سوال پر وزیراعظم نے کہا کہ اگر طالبان کی سرزمین سے دہشت گردی ہوتی ہے وہ مصائب کا شکار ہوں گے، بین الاقوامی دہشت گردی سے وہ نقصان اٹھائیں گے اس لئے بین الاقوامی دہشت گردی کو روکنا ان کے اپنے مفاد میں ہے۔ پاکستان اور فرانس کے دوران تعلقات کے سوال پر وزیراعظم نے کہا کہ فرانس پاکستان کے لئے بہت اہم ملک ہے،پہلی بات یہ ہے کہ پاکستان کی نصف برآمدات یورپی یونین کو جاتی ہے۔ فرانس وہاں کے انتہائی اہم ممالک میں سے ایک ہم اور تجارتی شراکت دار ملک ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان کے حوالے سے ان کی بنیادی فکر معیشت کو ٹھیک کرنا ، اپنے ملک کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنا اور 22 کروڑعوام کا خیال کرنا ہے، اس لئے میری بنیادی دلچسپی معیشت ہے اور اسی وجہ سے فرانس ہمارے لئے انتہائی اہم ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ کوروناکی وجہ سے شاید ہی کوئی بین الاقوامی سفر یا ملاقاتیں ہوئی ہوں۔ زیادہ تر ورچوئل ملاقاتیں ہوئی ہیں تاہم میں صدر میکرون سے ملناچاہوں گااور دوطرفہ تعلقات پر بات کرنا چاہوں گا۔ انہوںنے کہاکہ میری دومرتبہ صدر میکرون سے ٹیلی فون پر بات ہوئی ہے،فرانس میں پاکستانی سفیر کی تعیناتی کے سوال پر وزیراعظم نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ ہم اس پر کام کررہے ہیں۔ پاک بھارت تعلقات اور بھارت کی جانب سے غیر قانونی طورپر زیر تسلط جموں و کشمیر کے حیثیت کو تبدیل کرنے کے سوال پر وزیراعظم نے کہا کہ 5 اگست 2019 کو بھارت نے یکطرفہ طورپر کشمیر کی حیثیت کو تبدیل کیا،یہ وہ نقطہ آغاز تھا جس کے بعد سے ہمارے تعلقات منقطع ہیں کیونکہ ہندوستان کا ایسا کرنا اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی خلاف ورزی ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ ہندوستان میں آر ایس ایس کی زیر قیادت بی جی پی حکومت نے جس طریقے سے پاکستان اور خاص طورپر کشمیر کے حوالے سے اپنی پالیسی چلائی ہے۔ مجھے تشویش ہے کہ دنیا کے اس حصے میں اس وقت کافی بے چینی پائی جاتی ہے کہ ہم ایک منطقی سوچ رکھنے والی حکومت سے معاملہ نہیں کررہے بلکہ ایک ایسی حکومت کے ساتھ معاملہ کررہے ہیں جس کے نظریے کی بنیاد ہی نفرت پر ہے جس کا نظریہ مسلمانوں ، اقلیتوں اور پاکستان کے خلاف نفرت پر مبنی ہے، یہ ایک منطقی حکومت نہیں ہے جس کے ساتھ ہم بات چیت کر سکیں۔ ٰایک سوال پر وزیراعظم نے کہا کہ بھارت کو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ ہمارے درمیان اصل مسئلہ کشمیر کے حل کا ہے جو کہ ہمارے درمیان سب سے بڑا مسئلہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ جب میں اقتدار میں آیا تو میرا پہلا اقدام یہ تھا کہ میں نے وزیراعظم نریندرمودی کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھایا، میرا خیال یہ تھا کہ ہمارے ہمسایوں جیسے تعلقات ہوں، ہمارے درمیان کشیدگی کی واحد وجہ مسئلہ کشمیر ہے، اس مسئلہ کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کے حوالہ سے بھارتی وزیراعظم کا ردعمل خاصا حیران کن تھا، اس کے بعد پلوامہ کا واقعہ پیش آیا جہاں ایک کشمیری نوجوان نے بھارتی فوجی قافلے پر خودکش حملہ کر دیا جس پر انہوں نے ہمیں موردالزام ٹھہرایا، اس کے نتیجہ میں انہوں نے پاکستان پر بمباری کی، ہم نے ردعمل میں ان کا جہاز مار گرایا اور یہ بتانے کیلئے ہم جارحیت کو بڑھانا نہیں چاہتے ہم نے ان کے پائلٹ کو واپس کر دیا، اس وقت ہمارے درمیان کوئی رابطہ نہیں ہے بلکہ میں یہ کہوں گا کہ یہ ایک تعطل کی سی کیفیت ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہم بھارت کے ساتھ تعلقات قائم کر سکتے ہیں لیکن ان کی طرف اس کا آغاز ان اقدامات کی واپسی سے ہونا ہے جو انہوں نے 5 اگست 2019ءکو اٹھائے تھے، بھارت کو کشمیر کی حیثیت بحال کرنا ہو گی کیونکہ یہ بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے، 5 اگست 2019ءسے پہلے والی پوزیشن پر جانے کے بعد ہی ہم بات چیت کر سکتے ہیں، اس وقت مذاکرات کرنا کشمیر کے لوگوں کے ساتھ غداری کے مترادف ہو گا جنہوں نے اتنی مصیبتیں جھیلیں ہیں، اب تک ایک لاکھ کشمیریوں نے اپنی جانوں سے ہاتھ دھوئے ہیں، کشمیریوں کا یہ حق تھا جس کی ضمانت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں میں دی گئی تھی کہ استصواب رائے کے ذریعے انہیں اپنے مستقبل کے بارے میں خود فیصلہ کرنے کی اجازت ہو گی، کشمیریوں کو یہ حق نہ دینا اور طاقت کا استعمال جیسا کہ 8 لاکھ بھارتی فوج نے کشمیر کی وادی کو ایک اوپن جیل میں تبدیل کر دیا ہے، ایسی کوئی راہ نہیں ہے کہ ہم آگے بڑھ سکیں، جب تک وہ کشمیر کی حیثیت بحال نہیں کرتا مذاکرات نہیں ہو سکتے۔وزیراعظم نے کہا کہ سنکیانگ چین کا حصہ ہے، یہ کوئی تنازعہ نہیں ہے، اس کو چین کے حصہ کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے، کشمیر کی حیثیت یہ ہے کہ 1948ء میں عالمی برادری نے اس کو پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک تنازعہ کے طور پر تسلیم کیا ہے، کشمیر کے لوگوں کو ضمانت دی گئی تھی ،جو بھارت نے بھی تسلیم کیا تھا ،کہ وہ استصواب رائے کے ذریعے فیصلہ کریں گے کہ آیا وہ پاکستان کے ساتھ جانا چاہتے ہیں یا بھارت کے ساتھ، وہ استصواب رائے آج تک نہیں ہوا، کشمیر کو بھارتی آئین میں خصوصی حیثیت حاصل تھی، 2019ءمیں بھارت نے یکطرفہ طور پر یہ حیثیت ختم کر دی، کشمیر مکمل طور پر مختلف معاملہ ہے، یہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک متنازعہ علاقہ ہے، یہی وجہ ہے کہ پاکستان کشمیر کے لوگوں کی بات کرتا ہے کیونکہ ایک تہائی کشمیر پاکستان کے پاس ہے، بھارت کے زیر قبضہ کشمیر سے آئے ہوئے بہت سے پناہ گزین پاکستان میں رہائش پذیر ہیں، اس لئے یہ معاملہ براہ راست پاکستان سے متعلق ہے، دنیا بھر میں شام سے لے کر لیبیا، صومالیہ اور عراق میں مسلمانوں کے ساتھ بہت کچھ ہو رہا ہے لیکن اس وقت میرے خصوصی تحفظات کشمیر کے حوالہ سے ہیں جو پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک متنازعہ معاملہ ہے۔ پاک۔امریکا تعلقات سے متعلق سوال پر وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان کے امریکا کے ساتھ بہت اچھے تعلقات ہیں، ہمارے امریکا کے ساتھ ہمیشہ اچھے تعلقات رہے ہیں، پاک۔امریکا تعلقات کے بعض پہلوﺅں پر میں نے ہمیشہ تنقید کی ہے، جس پہلو کو میں نے سب سے زیادہ تنقید کا نشانہ بنایا ہے وہ دہشت گردی اور افغانستان میں ہونے والی جنگ ہے، میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ افغانستان کے مسئلہ کا فوجی حل نکلے گا، ابتداءمیں کچھ واضح نہ تھا کہ وہ افغانستان میں کس مقصد کے تحت آئے ہیں، کیا ان کے پیش نظر قوم کی تعمیر تھی یا خواتین کو حقوق دلانے کی بات تھی یا انسانی حقوق کا معاملہ تھا، وہ وہاں جمہوریت لانے کیلئے کیا کر رہے ہیں کیونکہ ان کے مقاصد واضح نہیں تھے، کسی کو معلوم نہ تھا کہ وہ افغانستان میں کیا کر رہے ہیں، میں نہیں سمجھتا کہ امریکیوں کو بھی معلوم تھا کہ وہ کیا کر رہے ہیں، افغانستان میں کیا کامیابی تھی کسی کو معلوم نہ تھا، میں نے ہمیشہ افغانستان میں ہونے والی اس مہم جوئی پر تنقید کی، وہ جو کچھ بھی حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اس کا کوئی فوجی حل نہیں ہے، دوسری بات دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی شرکت ہے، میں نہیں چاہتا تھا کہ پاکستان اس جنگ میں حصہ لے اور اس کی ایک وجہ تھی، 80ءکی دہائی میں افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف جنگ میں پاکستان نے امریکہ کی مدد کی تھی، مجاہدین کو مسلح کیا اور جہاد میں شرکت کرنے والوں کو ہیرو قرار دیا گیا کیونکہ وہ سوویت یونین کے قبضہ کے خلاف برسر پیکار تھے، ہم نے سی آئی اے کے ہمراہ ان کی تربیت کی تھی، 10 سال بعد 1989ءمیں سوویت فوجیں افغانستان سے چلی گئیں، پھر 2001ءمیں امریکی افغانستان میں آ گئے، اب انہی لوگوں کو جن کو ہم نے غیر ملکی قبضہ کے خلاف جنگ کی تربیت دی تھی، ہم یہ بتا رہے تھے کہ امریکی قبضہ کے خلاف جنگ دہشت گردی ہے تو وہ ہمارے خلاف ہو گئے، میرا نکتہ نظر یہ تھا کہ ہمیں غیر جانبدار رہنا چاہئے تھا، اس لئے پاکستانی طالبان ہمارے خلاف ہو گئے کیونکہ سوویت فوجوں کے خلاف ساری کارروائیاں ہمارے قبائلی علاقوں سے کی گئی تھیں جو افغانستان کے ساتھ ملحقہ اضلاع ہیں، وہاں کے لوگ پاکستانی طالبان بن گئے اور ہمارے خلاف ہو گئے، دوسری بات یہ ہے کہ مجاہدین کے پرانے گروپ جیسے کہ القاعدہ بھی پاکستان کے خلاف ہو گئے ج اور اس کے نتیجہ میں پاکستان کو 80 ہزار قیمتی جانوں کا نقصان اٹھانا پڑا۔ وزیراعظم نے کہا کہ امریکا کے کس اتحادی نے اتنے زیادہ لوگوں کا نقصان اٹھایا ہے، اس کے باوجود افغانستان میں ناکامی پر پاکستان کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا، میں نے اس سے اتفاق نہیں کیا تھا لیکن اس کے علاوہ اس وقت امریکا کے ساتھ ہمارے مشترکہ مقاصد ہیں، ہم افغانستان سے کسی قسم کی دہشت گردی نہیں چاہتے، ہم عالمی دہشت گردی کے خلاف ہیں، امریکا بھی یہی چاہتا ہے اس لئے ہمارے مفادات مشترک ہیں، میں امید کرتا ہوں کہ امریکہ بھی اس بات کا احساس کرے گا۔ وزیراعظم نے کہا کہ امریکہ ابتدا میں عالمی دہشت گردی یعنی القاعدہ کا مقابلہ کرنے کیلئے افغانستان آیا تھا، اب اگر وہاں بحران کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے تو ایک بار پھر وہاں وہی صورتحال پیدا ہو جائے گی اس لئے ہمارا مفاد مشترک ہے جو کہ افغانستان میں استحکام ہے۔ افغانستان میں فضاءسے نگرانی و آپریشن کی پالیسی حکمت عملی میں شمولیت کے سوال پر وزیر اعظم نے کہا کہ ایسا صرف طالبان کی حکومت کی اجازت سے ہو سکتا ہے اگر وہ اجازت دے تو تبھی ایسا ہو سکتا ہے بصورت دیگر یہ ہماری آخری خواہش ہو گی کہ افغان حکومت کے ساتھ کوئی تنازعہ ہو، 80 ہزار جانوں کا نقصان اٹھانے کے بعد پاکستان ایک اور تنازعہ کا متحمل نہیں ہو سکتا، ہم امن میں امریکہ کے شراکت دار ہیں لیکن تنازعات میں نہیں۔ ایک سوال پر وزیراعظم نے کہا کہ وہ امریکہ پر الزام نہیں لگاتے بلکہ اپنی ملکی قیادت کو ذمہ دار سمجھتے ہیں، ملکی قیادت کا کام یہ ہے کہ وہ اپنے لوگوں کے مفادات کا تحفظ کرے یہ امریکا کا کام نہیں ہے کہ وہ پاکستانی عوام کے مفادات کا تحفظ کرے، پاکستان نے خود کو استعمال کرنے کی اجازت کیوں دی، یہ واضح ہے کہ ہم 80ءکی دہائی میں افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف امریکا کی جنگ کا حصہ بنے، اس جنگ کے خاتمہ کے ایک سال بعد ہم پر پابندیاں عائد کر دی گئیں، پاکستان کو اس وقت سیکھنا چاہئے تھا، یہی وجہ ہے کہ میں نے 2001ءکے بعد امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی شمولیت کی مخالفت کی تھی، اس کی پہلی وجہ یہ کہ ہم نے ان مجاہدین کو غیر ملکی قبضہ کے خلاف جنگ کی تربیت دی تھی، اب ہم انہیں کیسے روکتے اور جب ہم نے امریکا کا ساتھ دیا تو ہمارے خلاف ہو گئے، دوسری بات یہ کہ ہمیں لگا کہ ہمیں استعمال کیا گیا ہے، جب 1991ئ میں پاکستان پر پریسلر ترمیم کے ذریعے پابندیاں لگائی گئیں اس وقت ہمارے ہاں 40 لاکھ پناہ گزین رہائش پذیر تھے، پاکستان میں پہلی بار کلاشنکوف کی آمد ہوئی اور مذہبی منافرت پھیلانے والے عسکری گروہ سامنے آئے، یہ 80ءکی دہائی میں ہونے والے افغان جہاد کا نتیجہ تھا، اس وقت میں نے ان کا ساتھ دینے کی مخالفت کی، میرا خیال تھا کہ ہمیں غیرجانبدار رہنا چاہئے تھا، مجھے آج بھی جارج بش کا بیان یاد ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ وہ دوبارہ پاکستان کو نہیں چھوڑیں گے لیکن انہوں نے ایک بار پھر وہی کیا۔ فرانس کے دورہ سے متعلق سوال پر وزیراعظم نے کہا کہ ابھی نہیں لیکن وہ یقیناً فرانس کا دورہ کرنا چاہیں گے۔
یہ یھی پڑھیں۔ بالی ووڈ کے بادشاہ امیتابھ بچن کی آنے والی فلم کا ٹائٹل ٹریک ریلیز