ممنوعہ فنڈنگ کیس: ہائیکورٹ کے احکامات پر عمران خان کی ضمانت پر فیصلہ مؤخر
Stay tuned with 24 News HD Android App
(24 نیوز) ممنوعہ فنڈنگ کیس میں بینکنگ کورٹ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے احکامات کی روشنی میں عمران خان کی ضمانت پر فیصلہ مؤخر کردیا۔ جج رخشندہ شاہین کا کہنا تھا کہ میں نے کنفرم کرلیا ہے کہ ہائی کورٹ نے ہمیں روکا ہے۔
اسلام آباد کی بینکنگ کورٹ میں ممنوعہ فنڈنگ کیس میں عمران خان کی ضمانت کی درخواست پر سماعت سے ہوئی۔ جج رخشندہ شاہین نے ریمارکس دیئے کہ ایک درخواست گزار اور ایک وکیل کمرہ عدالت میں رہے باقی سب لوگ باہر نکل جائیں، یہ میری عدالت ہے اور میں اسے اپنی مرضی سے چلاؤں گی، میں اس رش اور اس صورتحال میں کورٹ شروع نہیں کرونگی، میرے سٹاف نے کہا تھا تب ہی سب لوگوں کو باہر چلے جانا چاہئے تھا۔
عمران خان نے آج کی عدالتی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست دائر کی، جس میں وکیل عمران خان نے موقف اپنایا کہ عمران خان کی حاضری سے استثنی درخواست دائر کی ہے، جو بھی بات کہوں گا اس کے میڈیکل رپورٹ کی صورت ثبوت موجود ہیں۔
جج بینکنگ کورٹ نے استفسار کیا آپ نے میرا گزشتہ سماعت کا آرڈر ہائیکورٹ میں چیلنج کر رکھا ہے۔ جس پر وکیل عمران خان نے کہا کہ اگر آپ میری درخواست سن کر ریلیف دے دیں تو ہائی کورٹ نہیں جاؤں گا۔ جج بینکنگ کورٹ نے ریمارکس دیئے کہ آپ نے میرا آرڈر چیلنج کر رکھا ہے، اس لیے ضرور جائیں۔
عمران خان کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ مختصر وقت میں عدالت کے سامنے گزارشات رکھوں گا، ہائیکورٹ میں آپ کے حکم کیخلاف قدم بھی نہیں رکھنا چاہتا، میں چاہتا ہوں آپ اوپن مائنڈ کے ساتھ ہمیں یہاں ہی سن لیں۔
وکیل بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا فیصلہ موجود ہے اسپیشل پراسیکیوٹر نہیں آسکتا، میں نے اس کے باجود رضوان عباسی پر اعتراض نہیں اٹھایا، آج بھی ان پر اعتراض نہیں اٹھاؤں گا۔
عمران خان کے وکیل نے کہا کہ پہلی بار بتانا چاہتا ہوں کہ آپ کے سامنے درخواست گزار کون ہے، عمران خان 70 سال سے زائد عمر کے آدمی ہیں، وہ ورزش کی وجہ سے سپر فٹ ضرور ہیں مگر عمر ستر سال سے زائد ہے، کسی نوجوان کو بھی گولی لگے تین مہینے ریکوری میں لگتے ہیں، عمران خان کو تو عمر رسیدہ ہونے پر بائیو میٹرک سے بھی استثنیٰ ہے۔
چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی ذاتی پیشی کیلیے وکیل نے تین ہفتوں کی مہلت مانگ لی۔ عمران خان کے وکیل نے عمران خان کے ایکسرے بھی پیش کر دیئے۔
وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ ہم سب ڈاکٹر بنتے ہیں تو یہ ایکسرے بھی دیکھ لیں، ہم صرف تین ہفتے مانگتے ہیں کہ وہ سپورٹ کے بغیر کھڑے ہو سکیں، اگر ہماری استدعا نہیں سننی تو لکھنا ہوگا ہمارا میڈیکل درست نہیں، یہ بھی لکھنا ہو گا کہ عمران خان کو گولیاں نہیں لگیں، عمران خان اسلام آباد میں بھی نہیں ہیں۔
شریک ملزمان کے وکلاء نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ الزام لگایا گیا کہ ایک غلط بیان حلفی پی ٹی آئی نے دیا، پی ٹی آئی ایک پارٹی کا نام ہے کسی فرد کا نہیں، قانون کہتا ہے کوئی کلرک، افسر یا بنک حکام ایسا کریں تو قانون لاگو ہو گا، طارق شفیع نہ پارٹی، نہ کلرک نہ ہی افسر ہیں، وہ ایک پرائیویٹ شہری ہیں۔
وکیل علی اشفاق نے عدالت کو بتایا کہ طارق شفیع پر ایک ہی نوعیت کی تین ایف آئی آرز درج کرنا بدنیتی پر مبنی ہے، ایف آئی آر میں عارف نقوی پر غیر قانونی طریقے سے حاصل کردہ رقم بھیجنے کا الزام ہے، کوئی شواہد ریکارڈ پر نہیں کہ رقوم کیسے غیرقانونی طریقے سے حاصل کردہ ہیں۔
وکیل علی اشفاق نے عدالت کو بتایا کہ مسجد کے باہر چندے کا ڈبہ لگا ہوتا ہے لوگ اس میں چندہ ڈال کر چلے جاتے ہیں، مسجد انتظامیہ کو اس سے غرض نہیں کہ کسی نے حلال رقم سے چندہ دیا یا حرام سے، رقم غیرقانونی طریقے سے حاصل کردہ ہو تو بھی وصول کنندہ کو کسی طور ملزم نامزد نہیں کیا جا سکتا۔
وکیل میاں علی اشفاق نے دلائل دیئے کہ الزام ہے کہ عارف نقوی نے بیرون ملک جرم کیا ہے، عارف نقوی کو وہاں سزا بھی ہو چکی تو ہم یہاں کیا کر رہے ہیں ؟ ایف آئی اے یہاں یہ سارے حقائق عدالت سے چھپا رہی ہے، کیس 2013 کا ہے اُس وقت بھی یہی حکومت تھی، اُس وقت سے آٹھ سال تک یہ لوگ سوئے رہے، اب ایسا کیا ہو گیا سارے ادارے جاگ گئے، جاگیں ضرور جاگیں لیکن کسی اچھی جگہ پر جاگیں۔
وکیل میاں علی اشفاق نے کہا کہ طارق شفیع تو سیاسی شخص بھی نہیں ہیں، ایک ستر سال سے زائد عمر شخص پر یہ کیس بنا دیا گیا ہے، عارف نقوی کو جرمانہ لگ چکا، ایف آئی اے کے پاس اس کاریکارڈ ہی نہیں، کیا یہ کہہ رہے ہیں کسی دوسرے ملک کے جرم پر یہاں دوبارہ سزا دیں گے ؟۔
وکیل میاں علی اشفاق نے عدالت کو بتایا کہ عارف نقوی کی کمپنی کو وہاں جرمانہ ہو چکا یہ ایف آئی آر خود کہہ رہی ہے، عارف نقوی نے وہاں ڈیفالٹ کیا ہو گا اس میں یہ لوگ کدھر سے آئے ؟ عمران خان، طارق شفیع، عامر کیانی ان لوگوں کا اس میں کیا جرم ہے؟ الیکشن کمیشن کی ایک الگ کارروائی ہو سکتی ہے کہ پارٹی کیسے ریگولیٹ ہوگی، اس عدالت کے سامنے اسے الگ جرم کیسے بنا کر پیش کیا جا سکتا ہے۔
جج رخشندہ شاہین نے کہا کہ آپ غیر متعلقہ دلائل دے رہے ہیں، یہ صرف ضمانت کا کیس ہے، میں نے کوئی آبزرویشن نہیں دینی یہ محض ضمانت کا ہی کیس رہے گا۔ وکیل طارق شفیع نے کہا کہ انہی عدالتوں سے ضمانت سے آگے تک بھی بات گئی، فیصلے پڑھ کر سناؤں گا۔ جس پر جج رخشندہ شاہین نے ریمارکس دیئے کہ فیصلوں کی کاپی دے دیجئے گا پڑھنے کی ضرورت نہیں۔
وکیل علی اشفاق نے کہا کہ میں تھوڑا حصہ تو عدالت کے سامنے پڑھوں گا کہ کیا فیصلے ہوئے۔ جج رخشندہ شاہین نے کہا کہ اس عدالت میں ایسا نہیں ہو گا، یہ ضمانت کا ہی کیس رہے گا، اپنے دلائل جلدی مکمل کریں، باقی لوگوں کو بھی سننا ہے، آپ کے پیچھے لمبی لائن ہے انکو سب کے وکلاء کے بھی دلائل سننے ہیں۔ وکیل طارق شفیع نے کہا کہ عدالت اُن کو کل بھی سن سکتی ہے، سب کو مناسب موقع دیا جانا چاہیے۔
اسپیشل پراسیکیوٹر رضوان عباسی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ یہاں کہا گیا مسجد میں کوئی چندہ دے جائے تو کوئی نہیں پوچھتا، ایسا چندہ پاکستان میں ہی ہوتا ہے یو اے ای میں نہیں، تحریک انصاف نے بیرون ملک سے آنے والی رقوم کا جواز پیش کرنے کی کوشش کی۔
پراسیکیوٹر رضوان عباسی نے عدالت کو بتایا کہ تحریک انصاف نے الیکشن کمیشن میں ایک بیان حلفی جمع کرایا کہ بیرون ملک سے رقم حاصل ہوئی، تحریک انصاف کے اُس غلط بیان حلفی کی بنیاد پر یہ مقدمہ بنایا گیا، ملزمان کے وکلاء نے دلائل میں جرم کا اعتراف کیا ہے۔
اسپیشل پراسیکیوٹر نے کہا کہ ٹرانزیکشن مان کر قبول کیا گیا سیکشن 5 سی کے تحت جرم کیا ہے، پراسیکیوشن کی طرف سے کوئی بدنیتی شامل نہیں ہے، الیکشن کمیشن میں بیان حلفی جمع کرایا گیا کہ ووٹن کرکٹ لیمٹڈ سے رقوم حاصل ہوئیں، عمران خان ٹیلی ویژن پر آئے اور انہوں نے ایک الگ موقف اپنایا۔
رضوان عباسی نے عدالت کو بتایا کہ عمران خان کے ٹی وی شو کا پیمرا سے تصدیق شدہ ٹرانسکرپٹ موجود ہے، عمران خان کے متضاد موقف بھی اس مقدمہ کی وجہ بنا۔