نوازشریف کو سیاست سے آؤٹ کس نے کیا؟
Stay tuned with 24 News HD Android App
تین بار وزیر اعظم رہنے والے ، تاریخی طور پر پاکستان میں پہلی بار دو تہائی اکثریت حاصل کرنے والے اور اس بار بھی چوتھی بار وزیر اعظم بننے کا خواب سجانے والے نواز شریف کا خواب ادھورا رہ گیا اور یہ انتخابات ان کے سیاسی سفر کا اختتام محسوس ہو رہے ہیں ۔انتخابات کے بعد حاصل ہونے والے سپلٹ منڈیٹ نے نواز شریف کی چوتھی بار وزیر اعظم بننے کی خواہش کے آگے بندھ باندھا جس کے بعد گزشتہ روز انہوں نے خود ہی سرینڈر کرتے ہوئے اپنے چھوٹے بھائی شہباز شریف کے پلڑے میں اپنا وزن ڈالنے میں عافیت جانی ۔پروگرام’10تک‘کے میزبان ریحان طارق کہتے ہیں کہ اب حکومت سازی کے مراحل تقریبا طے ہوتے دکھائی دے رہے ہیں ۔اگلی مخلوظ حکومت کے وزیر اعظم کون ہونگے یہ سب کو معلوم ہو چکا ہے۔ گزشتہ رات سربراہ ق لیگ چوہدری شجاعت کے گھر ہونے والی میٹنگ جس میں بیشتر جماعتوں کے رہنماوں نے شرکت کی ۔اس میں نئی حکومت کے تمام اجزا ترکیبی فائنل کر لیے گئے جس کے بعد حکومت سازی کے لیے مل کر چلنے کا بھی اعلان کیا گیا۔ایک فریم میں بہت سے رہنما موجود تھے لیکن ان رہنماوں کی گروپ پریس کانفرنس میں نواز شریف اور مولانا فضل الرحمن کی غیر موجودگی سب کو محسوس ہوئی ۔جس متعلق سوالات بھی ہوئے لیکن ان سوالات کو وہاں بیٹھے معتبر سیاستدانوں نے بخوبی ٹالا۔ اس میٹنگ میں یہ بھی طے پا گیا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب کی امیدوار مریم نواز ہو گئی اور تمام جماعتیں ان کو سپورٹ کرینگے۔بدلے میں ایم کیو ایم کو پانچ وزارتوں کی آفر کرائی گئی ۔البتہ پیپلز پارٹی نے پہلے مرحلے میں کابینہ کا حصہ نہ بننے کا فیصلہ کیا ہے ۔لیکن آئینی عہدوں کے لیے ان کی جنگ ابھی بھی خاموشی سے جاری ہے۔باقی جماعتوں کو حصہ بقدر جسہ دینے کا کا فیصلہ کیا گیا،یہاں سول یہ ہے کہ مسلم لیگ ن نے اپنے تاحیات قائد نواز شریف کو یکسر نظر انداز کیا یا وہ خود ہی سپلٹ منڈیٹ کے ہاتھوں مجبور ہوئے۔نواز شریف مسلم لیگ ن کے پوسٹر بوائے کے طور پر لندن سے پاکستان آئے۔ کیسز ختم ہونے سے ان کے لیے سیاسی آسانیاں پیدا ہوئی بہت سے لیگی رہنماوں کو بھی کامیابی بھی نواز شریف کی بدولت ہی ملی ۔لیکن اس کے باوجود بہت سے ایسے رہنما جو نواز شریف کے قریب تھے وہ الیکشن میں شکست سے دوچار ہوئے۔رانا ثنا للہ ،جاوید لطیف،خرم دستگیر،سعد رفیق جیسے بہت سے ایسے رہنما جن کو نواز شریف کیمپ کا سمجھا جاتا تھا وہ الیکشن میں ناکام ہو گئے لیکن شہباز شریف کے کیمپ کے تقریبا رہنما نے جیت اپنے نام کی ۔اس کے علاوہ ایک رائے یہ بھی ہے کہ مقتدرہ اور خود پیپلز پارٹی بھی نواز شریف کی جگہ شہباز شریف کے ساتھ ہی چلنے میں دلچسپی رکھتی تھی ۔یہ ہی وہ پس پردہ محرکات تھے جس کے باعث نواز شریف نے گزشتہ روز مریم اورنگزیب کے ذریعے اپنا وزن بھی شہباز شریف کے پلڑے میں ڈالا اور مریم نواز کو بطور وزیر اعلیٰ پنجاب بنوانے میں عافیت جانی ۔مزید دیکھیے اس ویڈیو میں