مذاکرات ،کیا حکومت اور پی ٹی آئی میں بریک تھرو ہوسکتا ہے؟
Stay tuned with 24 News HD Android App
(24 نیوز)مذاکرات کی تیسری اننگز کا آغاز کل سے ہونے جا رہا ہےلیکن یہ سوال اب بھی اپنی جگہ پر موجود ہے کہ کیا کل کوئی بڑا بریک تھرو ہوگا یا نہیں؟کیونکہ حکومت اور تحریک انصاف ایک بار پھر ایک دوسرے کے آمنے سامنے نظر آرہے ہیں ۔
پروگرام’10تک‘ کے میزبان ریحان طارق کا کہنا تھا کہ گزشتہ روز سینیٹ میں دونوں جانب سے ایک دوسرے پر لفظی گولہ باری کی گئی،ایک دوسرے پر دشمن ملک کے ایجنٹ ہونے کا الزام لگایا گیا ۔جس کے بعد یہ سوال اُٹھ رہا ہے کہ محاذ آرائی کے ماحول میں مذاکرات کیسے کامیاب ہوسکتے ہیں ؟صرف یہی نہیں حکومت تو اب براہ راست پی ٹی آئی پر این آر او لینے کا الزام لگا رہی ہے ۔
وزیر قانون اعظم ںذیر تارڑ کا گزشتہ روز سینیٹ کے اجلاس میں گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ یہ لوگ ساری زندگی ہمیں کہتے رہے این آر او نہیں دیں گے،لیکن پی ٹی آئی اب یہ مطالبہ کر رہی ہے کہ دہشت گردی یا کرپشن کیسز میں جو جیلوں میں بند ہیں، حکومت ایگزیکٹیو آرڈر سے اُنہیں رہا کرے ۔
یعنی حکومت یہ تاثر دے رہی ہے کہ تحریک انصاف سارے حربے آزمانے کے بعد اب آخر میں این آر او کا مطالبہ کر رہی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ تحریک انصاف تحریری مطالبات لکھ کر دینے سے گریز کر رہی تھی کیونکہ اُس کو خدشہ تھا کہ حکومت اِن تحریری مطالبات کو میڈیا پر لہرا کر اپنی کامیابی کا شور ڈال کر یہ بتانے کی کوشش کرے گی کہ تحریک انصاف نے حکومت سے ڈیل مانگی ہے ۔اب ایک طرف اعظم نذیر تارڑ یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ تحریک انصاف حکومت سے ڈیل چاہتی ہے ،لیکن دوسری جانب رانا ثنا اللہ تو ہاتھ کھڑے کر رہے ہیں ۔وہ کہتے ہیں کہ اگر تحریک انصاف ہم سے مذاکرات کرنا چاہتی ہے تو ہم سے ہماری حیثیت کے مطابق مانگیں ۔ پی ٹی آئی ہم سے وہ چیزیں مت مانگے جس کی ہماری حیثیت نہیں ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ تحریک انصاف سیاسی قیدیوں کی رہائی اور نو مئی اور 26 نومبر کے واقعات کی تحقیقات کا مطالبہ کر رہی ہے۔ایسے میں کیا حکومت کا یہ اختیار ہی نہیں کہ وہ کم سے کم نو مئی اور 26 نومبر کے واقعات کی تحقیقات پر جوڈیشل کمیشن بنادے ۔اور جہاں تک سیاسی قیدیوں کی رہائی کا تعلق ہے تو حکومت تحریک انصاف کو یہ پیشکش تو کرچکی ہے کہ وہ سیاسی قیدیوں کی فہرست دے ۔تو پھر اِس کے باوجود حکومت اپنی بے بسی کا اظہار کیوں کر رہی ہے؟اِس کا مطلب یہ ہوا کہ حکومت اور تحریک انصاف میں بانی پی ٹی آئی کی رہائی کو لے کر رکاوٹ کھڑی ہورہی ہے۔حکومت جانتی ہے کہ اگر بانی پی ٹی آئی کو رہا بھی کردیا جائے تو پھر بھی وہ خاموشی سے نہیں بیٹھیں گے ۔بلکہ وہ نئے الیکشن کیلئے جدو جہد کریں گے ۔
اِس لئے حکومت نہیں چاہتی کے بانی پی ٹی آئی غیر مشروط طور پر باہر آئیں ۔اگر یہ ڈیڈلاک برقرار رہتی ہے تو حکومت کیلئے بھی یہ کوئی اچھی خبر تو نہیں ہوگی کیونکہ اُس کو خدشہ ہے کہ بیک ڈور رابطوں کے ذریعے تحریک انصاف کی بات بن سکتی ہے اور تحریک انصاف بھی یہ بات اچھے سے جانتی ہے کہ اصل بات بیک ڈور رابطوں کے ذریعے ہی بن سکتی ہے ،علی امین گنڈاپور تو پس پردہ طاقتوں سے رابطے میں بھی ہیں۔
یہاں تک کہ وہ 26 نومبر اور نو مئی کے واقعے پر آرمی چیف کی موجودگی میں وزیر اعظم شہباز شریف سے تلخ ہوتے ہوئے بھی نظر آئے ،اب علی امین گنڈاپور کا آرمی چیف کے سامنے شہباز شریف کے ساتھ تلخ ہونا اور اِس کے باجود آرمی چیف کا دورہ پشاور کے موقع پر علی امین گنڈاپور کے ساتھ ہونا حکومت کو کٹھک رہا ہے ۔یہاں تک کہ حکومت کو بار بار یہ یقین دہانیاں کرانا پڑ رہی ہیں کہ حکومت اپنے پانچ سال پورے کرے گی اور شہباز شریف ہی وزیر اعظم رہیں گے ۔جس کا مطلب یہ ہوا کہ حکومت کو دال میں کچھ کالا نظر آرہا ہے۔
حکومت کی بھی کہیں نہ کہیں یہ خواہش ضرور ہے کہ کچھ ایسی راہ نکلے جس میں حکومت کیلئے بھی سیاسی راستہ کھلا رہے ۔یہی وجہ ہے کہ سینیٹر عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی سے مذاکرات کرنیوالی حکومتی کمیٹی31 جنوری کو ازخود تحلیل نہیں ہو جائے گی، ضرورت پڑنے پر مذاکرات کیلئے فوج اور عدلیہ کی مدد بھی لینا پڑی تو ہم لیں گے،اب عرفان صدیقی کی بات سے تو ایسا لگ رہا ہے کہ حکومت چاہتی ہے کہ مذاکرات کےذریعے کوئی حل نکلے اور اِس کیلئے حکومت عدلیہ اور فوج کی مدد بھی لینے کیلئے تیار نظر آتی ہے ۔جبکہ تحریک انصاف تو صاف کہہ رہی ہے کہ کل مذاکرات پر عمل نہیں ہوتا تو پھر حکومت اور پی ٹی آئی کے راستے جدا جدا ہوجائیں گے ۔
اب دیکھا جائے تو جو کشیدگی کا ماحول بنا ہوا ہے اُس میں سنجیدہ مذاکرات کاہونا ہے مشکل ہے ۔اور یہی بات مولانا فضل الرحمان بھی فرما رہے ہیں ۔وہ کہتے ہیں کہ میں مذاکرات کا حامی ہوں لیکن مذاکرات کیلئے سازگار ماحول بھی ہونا چاہئے ،مذاکراتی کمیٹی میں شامل فاروق ستار کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی تحریری مطالبات رکھتی ہے تو بات آگے بڑھے گی ،آخر یہ مطالبات ہیں کیا؟