(ملک اشرف)لاہورہائیکورٹ کا فون ڈیٹا نکلوانے کے متعلق اہم فیصلہ جاری، عدالت نے دہشت گرد تنظیم سے تعلق کے الزام میں ملزم کی سزا کے خلاف اپیل کے فیصلے میں قرار دیا ہے کہ ملزم یا مجسٹریٹ کی اجازت کے بغیر فون ڈیٹا نکلوانا آئین کے آرٹیکل 13 کیخلاف ہے۔
تفصیلات کے مطابق لاہور ہائی کورٹ میں دہشت گرد تنظیم سے تعلق کے الزام میں ملزم کی سزا کے خلاف اپیل کی سماعت ہوئی، جسٹس علی باقر نجفی اور جسٹس امجد رفیق نے درخواست کی سماعت کی،عدالت کا کہنا تھا کہ ملزم یا مجسٹریٹ کی اجازت کے بغیر فون ڈیٹا نکلوانا آرٹیکل 13 کے خلاف ہے، ذاتی فون کا ڈیٹا لینا اچھی روایت نہیں، یہ پرائیویسی کے حقوق کے خلاف ہے، ملزم راضی نہ ہو تو مجسٹریٹ سے فون ریکارڈ لینےکیلئے اجازت طلب کرنی چاہیے۔
عدالت نے شک کا فائدہ دے کر ملزم رحمت اللہ کو بری کرنے کا فیصلہ سنادیا،ملزم کو انسداد دہشت گردی عدالت نے مجموعی طور پر 10 سال قیدکی سزا سنائی تھی۔
جسٹس محمد امجد رفیق نے 20 صفحات کافیصلہ لکھوایا ،فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ اگر شہری یا ملزم راضی نہ ہو تو کم از کم مجسٹریٹ سے فون کا ریکارڈ لینے کے لئے اجازت طلب کرنی چاہیے۔ اس جدید دور میں ہم اپنے قریبی اور پیاروں سے آڈیو اور ویڈیو کے زریعے بات کرتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: بڑی خبر آ گئی،تیل کی قیمت گر گئی
فیصلے کے متن کے مطابق ہمارے فونز ہمارے گھر سے کم نہیں، اپنے گھر کی چار دیواری میں رکھے جانے والے ہر تعلق کو آئینی تحفظ حاصل ہے۔ انسان کتابیں، گوگل، فیسبک، یو ٹیوب، ٹویٹر دیکھتا ہے جسکی قانون میں ممانعت نہیں، جب تک انسان اپنی معلومات کو فون میں سیکریٹ رکھنا چاہیے ، اسکی اجازت یا قانونی ہدایات کے بغیر وہ معلومات نہیں نکالی جا سکتی۔
فیصلہ میں مزید کہا گیا ہے کہ اگر معلومات کا حصول قانون کیخلاف ہے تو اسے قانون کے ذریعے روکا جا سکتا ہے۔ قانون کے تحت اگر موبائل فون کا ڈیٹا کسی جرم کا لنک دے رہا ہے تو24 گھنٹے میں عدالت کے نوٹس میں لا کر اسے دیکھا جا سکتا ہے۔