توبہ نعوذ بااللہ نقل کفر کفر نا باشد آجکل ہمارے آپ جیسے انسان عمران خان کو" قاسم کا ابا" کہا جارہا ہے اس نام سے پکارا جانا صحیح نہیں ہے, اس سے پہلے میں اس موضوع پر احادیث کی روشنی میں کچھ لکھوں اپنا خود پر بیتا واقعہ بیان کردوں ۔
میں مدینہ پاک میں روضہ رسولﷺ کی زیارت کے لیے مقرر کردہ راستوں پر چل رہا تھا دل میں ارمان زیارت کی قبولیت کا تھا اور لب پہ درودپاک نظریں جھکائے قدم اٹھاتا آہستہ آہستہ جب عین روضہِ فحر کائنات ، وجہ کائنات ،احسن التقویم ، رحمت العالمین ، مصباح سالکین ، صاحب تاج وشاہِ معراج کے سامنے پیش ہوا تو دیدار کے لیے نظر اٹھائی تو عین سنہری جالیوں کے( ان جالیوں پر میرے مال و عیال قربان) کے اوپر سورۃ الحجرات کی آیت لکھی تھی جس کا مفہوم ہے کہ
"اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبیﷺ کی آواز پر اونچی نہ کرو اور ان کے حضور زیادہ بلند آواز سے کوئی بات نہ کہو جیسے ایک دوسرے کے سامنے بلند آواز سے بات کرتے ہو کہ کہیں تمہارے اعمال بربادنہ ہوجائیں اور تمہیں خبرنہ ہو" اللہ اکبر اللہ اکبر ۔
کیفیت طاری ہوئی اور آنسو ؤں کی لڑیوں کا نہ تھمنے والا سلسلہ تھا جو شروع ہوا ہم تو بہت گستاخ ہیں قرآن میں تو اس دربار میں گستاخی کا تصور بھی ہلاکت کا باعث بتایا گیا ہے آواز کو بھی نیچا رکھنے کا حکم ہے اور میری تو بچوں جیسی صورتحال تھی ہچکی بندھ چکی تھی مجھے ہچکیوں کی یہ آواز بھی گستاخی معلوم ہو رہی تھی شدت آہ و گری اس قدرزیادہ تھی کہ آقاﷺ کے در کے محافظ بھی میرے پاس آگئے لیکن نہ آنسو تھم رہے تھے نہ ہچکیاں رک رہیں تھیں ، یہ کفیت مسجد نبوی سے نکل جانے کے بعد تک کافی دیر برقرار رہی ۔
اب میں سوچتا ہوں کہ تحریک انصاف کے کارکنان نے کیسے مسجد نبویﷺ میں ایک خاتون (مریم اورنگزیب) کو گھیر کر نعرے لگائے ہوں گے اپنی آواز کو کیسے بلند کیا ہوگا اور قرآن میں ایسے افراد کے لیے کیا وعید ہے ؟ ہمیں اپنی گستاخیوں کا علم بھی نہ ہوپائے گا کہ کب اعمال ضائع ہوگئے۔
ضرور پڑھیں :باادب باملاخظہ ہوشیار! عمران خان تشریف لاتے ہیں
یہ سب تو گزر چکا اب آئیں تحریک انصاف کے سوشل میڈیائی جہلا کی جانب جنہوں نے اپنے چیئرمین کو "قاسم کا ابا" جسے اگر عربی میں ادا کیا جائے تو ابوالقاسم "کہا جائے گا کو مشہور کرنے کی ناپاک جسارت کی اور مذموم سازش کی، نبی اکرمﷺ نے یہ کنیت اختیار کرنے سے تمام مسلمانوں کو منع فرمایا ہے اس حوالے سے صحیح حدیث ہے جو جامع مسلم شریف میں یوں درج ہے ،
كِتَاب الْآدَابِ -- معاشرتی آداب کا بیان
1. باب النَّهْيِ عَنِ التَّكَنِّي بِأَبِي الْقَاسِمِ وَبَيَانِ مَا يُسْتَحَبُّ مِنَ الأَسْمَاءِ:
باب: ابوالقاسم کنیت رکھنے کی ممانعت اور اچھے ناموں کا بیان۔
حدیث نمبر: 5597
وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَعَمْرٌو النَّاقِدُ ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَابْنُ نُمَيْرٍ ، قَالُوا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ أَيُّوبَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ ، قال: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ ، يَقُولُ: قَالَ أَبُو الْقَاسِمِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " تَسَمَّوْا بِاسْمِي، وَلَا تَكَنَّوْا بِكُنْيَتِي "، قَالَ عَمْرٌو: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَلَمْ يَقُلْ سَمِعْتُ.
ابو بکر بن ابی شیبہ، عمرو ناقد، زہیر بن حرب، اور ابن نمیر نے کہا: ہمیں سفیان بن عینیہ نے ایوب سے حدیث بیان کی، انھوں نے محمد بن سیرین سے روایت کی، کہا: میں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا
: ابو القاسم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میرے نام پر نام رکھو اور میری کنیت پر کنیت نہ رکھو۔"عمرو نےکہا"حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ر وایت ہے "کہا اور"میں نے سنا" نہیں کہا۔
ہمارا ایمان کامل ہے کہ اس حدیث کے بعد کوئی بھی مسلمان یہ کنیت رکھنے کی جرات نہیں کرسکتا ، اس حوالے سے جو واقعہ بیا ن ہوا ہے اس کے مطابق "نبی اکرم ﷺ ایک مرتبہ بازار سے گزر رہے تھے تو کسی نے ابو القاسم کہہ کر آواز لگائی آپ نے مڑ کر جب دیکھا تو اس شخص نے کہا کہ یہ آپ ﷺ کے لیے نہیں ہے " جس کے بعد آپ نے یہ کنیت اختیار کرنے سے مسلمانوں کو منع فرمایا ۔
یہ بھی پڑھیں :بجٹ، کھجٹ، مجھٹ، چھو ۔۔۔ اور عمران غائب
عمران خان کو اگر میڈیا میں لکھا یا پکارا جانا اتنا ہی ضروری ہے تو اس کے لیے پھر چیئرمین تحریک فساد کو ،معافی چاہتا ہوں تحریک انصاف کو " ٹیریان کے ابا " کہا جاسکتا ہے کہ اس طرح بن ماں کی بچی کو باپ کی شناخت بھی مل جائے گی، عمران خان کا نام بھی نہیں چلے گا اور آپ سب گستاخی سے بچ کر الٹا ثواب حاصل کریں گے ۔ ویسے سلمان کا ابا بھی کہا لکھا اور پکارا جاسکتا ہے لیکن سلمان کی والدہ حیات اور اُن کی سرپرست ہیں اس لیے میرا مشورہ تو یہی ہے کہ عمران خان کو میڈیا پر ٹیریان کا ابا ، یا ،پاپا کہہ کر ہی پکارا جائے ۔
ضروری نوٹ :ادارے کا بلاگر کے ذاتی خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ۔ایڈیٹر