بھنگ نشہ بھی۔۔۔ اور۔۔۔ لباس بھی

Mar 15, 2021 | 22:14:PM

(24نیوز) آج تک بھنگ کو ایک نشے کی وجہ سے ہی پہچانا جاتا ہے مگر آپ کو حیرت ہوگی کہ دنیا بھر میں بھنگ کے پودے کے ریشوں سے جین کی پتلونیں تیار ہوتی اور پہنی جاتی ہیں۔لیکن اب پاکستان میں بھی بھنگ سے پتلونیں تیا ر ہونا شرو ع ہو گئی ہیں۔
برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے مطابق زرعی یونیورسٹی کے ماہرین نے ایسی جینز کی پینٹ تیار کی ہے جس میں بھنگ کے پودے کا استعمال کیا گیا ہے۔اس جینز کو بنانے میں جو دھاگہ استعمال کیا گیا اس میں بھنگ کے پودے سے لیا گیا ریشہ ایک خاص تناسب سے شامل کیا گیا ہے۔ 
زرعی یونیورسٹی کے شعبہ فیبرک اینڈ ٹیکسٹائل ٹیکنالوجی کے ماہرین نے پاکستان میں قدرتی طور پر اگنے والی جنگلی بھنگ کو استعمال کرتے ہوئے لیبارٹری کے اندر بھنگ اور کپاس کو ملا کر دھاگہ تیار کیا ۔ اس کے بعد اس سوتر سے جینز تیار کرنے تک کا تمام عمل بھی تجربہ گاہ میں مکمل کیا گیا۔لیکن یہ کوئی انہونی بات نہیں ہے۔ دنیا میں پہلے ہی سے بھنگ ملی جینز تیار بھی ہو رہی ہے اور پہنی بھی جا رہی ہے۔

پاکستان ہی میں متعدد ٹیکسٹائل ملز اس قسم کی جینز کارخانوں میں تیار کرنے کے بعد برآمد کر رہی تھیں۔ تاہم ان پتلونوں میں استعمال ہونے والا بھنگ کا سوتر درآمد کیا جاتا تھا۔ کیونکہ یہ سوتر مہنگا ہوتا ہے، اس لیے بھنگ ملی جینز کی تیاری محدود پیمانے پر کی جاتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ فیصل آباد زرعی یونیورسٹی کے ماہرین کی حالیہ کاوش کو پاکستان کی معیشت اور خصوصاً کپڑے کی صنعت کے مستقبل کے لئے ایک اچھی خبر تصور کیا جا رہا ہے۔
زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کے شعبہ فیبرک اینڈ ٹیکسٹائل ٹیکنالوجی کے چیئرمین ڈاکٹر اسد فاروق نے بی بی سی کو بتایا کہ بھنگ اربوں ڈالر کی صنعت ہے۔ عالمی منڈی میں بھنگ ملی جینز کی مانگ بہت زیادہ ہے اور مسلسل بڑھ رہی ہے۔ پاکستان اس کی فروخت سے اربوں ڈالر زرِ مبادلہ کما سکتا ہے۔تاہم اس کے لئے ضروری یہ تھا کہ ایسی جینز کی تیاری میں استعمال ہونے والا بھنگ کا دھاگہ مقامی طور پر بنایا جائے۔ اس طرح بھنگ کے دھاگے کی فراہمی یعنی سپلائی کا ایک حجم بنایا جا سکے گا جس سے اس کی قیمت میں کمی آ جائے گی۔ اس سستے دھاگے کو استعمال کر کے پاکستان میں جینز بنانے والی ملز سستے طریقے سے پتلونیں تیار کر کے عالمی منڈی میں مہنگی فروخت کر سکتی ہیں۔امریکہ اور یورپ میں خصوصاً اس قسم کی جینز کی مانگ میں تیزی دیکھنے میں آ رہی ہے۔مکمل طور پر کپاس سے تیار کی گئی جینز کے مقابلے میں بھنگ ملی جینز کی قیمت کہیں زیادہ ہے۔ اسی کو دیکھتے ہوئے لاہور میں جینز بنانے اور برآمد کرنے والی ایک بڑی کمپنی نے ڈاکٹر اسد اور ان کے شعبے سے رابطہ کیا اور انہیں اس پر کام کرنے کی دعوت دی۔مقامی طور پر تیار کی جانے والی جینز ان دونوں کے درمیان طے پانے والے معاہدے کے تحت بنائی گئی ہے۔
سوال یہ ہے کہ بھنگ جینز میں ملائی ہی کیوں جا رہی ہے، اس میں ایسی کیا خاص بات ہے؟شعبہ فیبرک اینڈ ٹیکسٹائل ٹیکنالوجی کے چیئرمین ڈاکٹر اسد فاروق نے بتایا کہ بھنگ ملی جینز کی خاص بات یہ ہے کہ یہ ایک پائیدار جینز ہے ۔ بھنگ ملی جینز کو اس لئے پائیدار کہا جاتا ہے کہ کپاس کے مقابلے میں بھنگ از خود ایک پائیدار فصل تصور کی جا تی ہے۔ اسی لئے بھنگ سے بنی جینز کی تیاری کا طریقہ کار بھی زیادہ پائیدار ہے۔دنیا بھر میں یہ تصور وجود پا چکا ہے کہ کپڑے کی صنعت آلودہ اور آلودگی پیدا کرنے والی صنعت ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کپاس کی فصل کے لئے بڑی مقدار میں پانی اور کیمیائی کھادوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ کیڑا کش ادویات اس کے علاوہ ہیں۔اس کا مطلب یہ ہے کہ تیزی سے رونما ہوتی ماحولیاتی تبدیلیوں اور ان سے بچنے کے لیے کیے جانے والے اقدامات کے نتیجے آنے والے دنوں میں کپاس زیادہ مقدار میں میسر نہیں ہو گی۔ یعنی وہ کپڑے کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ناکافی ہو گی۔ اس لیے وہ پائیدار نہیں رہی۔اس کے مقابلے میں بھنگ کو نہ تو پانی کی ضرورت ہوتی ہے، نہ ہی کھاد اور کیڑا کش ادویات کی۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا میں بھنگ سے تیار کیے جانے والی جینز کی مانگ مسلسل بڑھ رہی ہے۔
ڈاکٹر اسد فاروق کے مطابق بھنگ نہ صرف یہ کہ ایک پائیدار پودا ہے بلکہ اس کے اندر جراثیم کش خصوصیات بھی پائی جاتی ہیں۔بھنگ کا دھاگہ اس کی چھال یا تنے کے اندر موجود ہوتا ہے اس لئے اسے حشرات یا کیڑے نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ اور یہ پودہ بارش کے پانی سے قدرتی طور پر اگتا ہے یعنی اسے زیادہ پانی اور کھاد کی ضرورت بھی نہیں پڑتی۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ یہ ایک نیچرل فائبر یا قدرتی دھاگہ ہے۔ کپاس کو جب آپ کسی دوسرے سوتر سے تبدیل کرتے ہیں تو وہ قدرتی ہونا چاہئے۔ بھنگ کے اندر یہ صلاحیت موجود ہے کہ یہ کپاس کا نعم البدل بن سکتا ہے۔ 
ان کے مطابق شعبہ فیبرک اینڈ ٹیکسٹائل ٹیکنالوجی نے جو جینز تیار کی ہے اس میں بھنگ کو کپاس کے ساتھ ملایا گیا ہے جس میں بھنگ کی شرح 20 فیصد ہے۔کپاس کے مقابلے میں بھنگ زیادہ سخت سوتر ہے۔ اس کو مخصوص طریقہ کار کے ذریعے نرم کیا جاتا ہے۔ 'اگر نرم نہ کیا جائے تو اس میں ٹویسٹ یعنی لچک نہیں آتی اور ایسا دھاگہ کپڑے کی بنوائی کے دوران خلا چھوڑ جاتا ہے ۔ 
 ڈاکٹر اسد فاروق کے مطابق وہ اور ان کے دیگر ساتھی پہلے ہی سے اس پر کام کر رہے ہیں کہ صنعتی بھنگ کی پاکستان میں کاشت کا آغاز کیا جائے۔'بیرونِ ممالک سے صنعتی بھنگ کا بیج درآمد کیا جائے گا۔ پھر ہم اسے پاکستان کے موسمی حالات کے مطابق ڈھالیں گے۔ اس کے بعد جس بیج میں ہمیں وہ خصوصیات ملیں گی جن کی ہمیں ضرورت ہے تو اس بیج کو پاکستان میں کاشت کیا جائے گا۔ااس تمام عمل میں چند برس کا وقت درکار ہو گا۔ تاہم اس کے بعد ہم ایک چین بنا لیں گے جس میں ایک طرف صنعتی بھنگ کی فصل کی سپلائی ہو گی اور دوسری طرف اس سے جینز بنانے کی ٹیکنالوجی ہو گی۔پاکستان میں مقامی طور پر صنعتی بھنگ سے سستی جینز بنانے کی صلاحیت مل جانے سے پاکستان عالمی منڈی میں کئی گنا زیادہ زرِ مبادلہ کما سکتا ہے۔ڈاکٹر اسد کا کہنا تھا کہ پاکستان کی کپڑے کی صنعت کے پاس کورونا کے بعد کے لیے دنیا میں پیدا ہونے والی کپڑے کی مانگ کو پورے کرنے کے لیے بڑی تعداد میں آرڈر موصول ہو چکے ہیں۔ اسی پس منظر میں انہوں نے یہ نئی جدت اپنائی ہے۔

مزیدخبریں