عمران خان کی مقبولیت کا بُت پاش پاش
عامر رضا خان
Stay tuned with 24 News HD Android App
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان بلاآخر اپنی تیسری کوشش میں وہ ریلی نکالنے میں کامیاب ہوہی گئے جس کا چرچا اُن کے حواری اس انداز میں کرتے تھے کہ جیسے ایک ایسی ریلی نکالی جائے گی جو پاکستان کی تاریخ کی سب سے بڑی ریلی ہوگی ،ابھی چند دن پہلے ہی ایک انصافی بھائی سے بات ہورہی تھی تو انہوں نے کہا کہ خان ایک ایسی ریلی نکالے گا کہ جس کی مثال نہیں دی جاسکے گی میں نے حیرت میں گُم ہوکر پوچھا کہ کیا یہ ریلی ججز بحالی تحریک کی نواز شریف کی ریلی سے بھی بڑی ہوگی؟ تو جواب ملا کیا بات کرتے ہو بے نظیر کی 1988 والی لاہور ریلی یا استقبال سے بھی بڑی ریلی ہوگی ۔
ضرور پڑھیں : نشئی کو پکڑنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے !!
1988 میں محترمہ بے نظیر بھٹو جب جلاوطنی کے بعد لاہور پہنچی تو لاکھوں افراد نے اُن کا استقبال کیا تھا میں بھی ان کے استقبال کرنے والوں میں شامل تھا ،سر ہی سر تھے تل دھرنے کو جگہ نہیں تھی ،جنرل ضیا الحق کا طوطی بولتا تھا وی سخت مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر تھے ،اس کے باوجود وہ انسانی سمندر کی لہروں کے سامنے بند نہیں باندھ سکے تھے میں اور میرا چھوٹا بھائی احسن رضا بھی اس انسانی ریلے کے گواہ ہیں جو مارشلائی قوتوں کو اپنے ساتھ بہا لے گیا، اس ریلے کے دوران ہمیں انارکلی بازار کے فٹ پاتھ پہ کھڑے منو بھائی بھی ملے اُن کے ساتھ گپ شپ کی تو اُن کا ایک جواب بہت لاجواب تھا کہ ’اب مارشل لاء کو جانے اور بھٹو خاندان کو آنے سے کوئی روک نہیں سکے گا‘ اور الیکشن میں ایسا ہی ہوا بے نظیر بھٹو اسلامی دنیا کی پہلی خاتون وزیر اعظم بن گئیں ۔
اس کے بعد بات کرلیتے ہیں ججز بحالی تحریک کی جو نواز شریف نے پایا انجام تک پہنچائی اس مرتبہ بھی ایک مارشل لاء ایڈمنسٹر یٹر جنرل پرویز مشرف سامنے تھا میری خود کی ڈیوٹی قذافی سٹیڈیم کے فیروز پور روڈ پر تھی ،ہو کا عالم تھا کرفیو جیسا ماحول تھا موبائل فون بند تھے ایک جانب سے رائڈر ڈی وی لیے آتا تو پیغام ملتا وہاں بھی ایسی ہی صورتحال ہے لگتا نہیں تھا کہ نواز شریف نکلیں گے، ماڈل ٹاؤن پولیس کے گھیرے میں تھا کوئی گھروں سے نکلے کو تیار نہیں تھا ٹی وی پر بھی خاموشی کے مناظر دکھائے جارہے تھے لیکن پھر اچانک کیا ہوا کہ میاں نواز شریف ایک پرائیویٹ گاڑی میں اپنے گھر سے نکلنے میں کامیاب ہوگئے ،ماڈل ٹاؤن سے کلمہ چوک تک صرف چند گز کے فاصلے نے وہ کمال کیا کہ ساری پابندیاں ختم ہوگئیں، کلمہ چوک میں مسلم لیگی کارکنان کا قبضہ ہوا تو مسلم ٹاؤن کی جانب سے خواجہ سعد رفیق نوجوانوں کو لیکر پہنچ گئے پھر کیا تھا جہاں کرفیو تھا وہاں سیاسی نعرے بازی جاری تھی شاہدرہ پہنچتے پہنچتے یہ طوفان ایسا بڑھا کہ گوجرانوالہ تک لوگ ہی لوگ تھے اور یوں وقت کا حکمران جھک گیا اور اسے ججز کو بحال کرنا پڑا ۔
اب بات کرلیتے ہیں عمران خان کی اُس ریلی کی جسے یار دوست الف لیلٰی کہہ رہے ہیں ،دو مرتبہ کے التواء کو دفعہ 144 کے سر منڈھنے والوں کو بتایا گیا کہ اب انتظامیہ نہیں روکے گی ،جو ریلی میں جانا چاہے گا جاسکتا ہے لیکن اس آزادی کا فائدہ بھی عمران خان کے سوشل میڈیائی یوٹیوبرز بھی نہ اٹھا سکے ،زمان پارک سے نکلنے والی ریلی آغاز سے ہی مایوس کُن تھی تین سے چار سو کے قریب افراد تھے دھرم پورہ تک تو اس ریلی کے حالات بہت پتلے تھے اس لیے گڑھی شاہو میں اس ریلی کو روکا گیا لوگوں کو بلایا گیا سرکلر روڈ پر اندرون لاہور کے تماشبین بھی اس ریلی میں شامل ہوگئے اور یوں تقریباً دو ہزار کا مجمع تھا جو عمران خان کی بلٹ پروف گاڑی کے ارد گرد جمع ہوا لاہور کی ڈیڑھ کروڑ کی آبادی میں سے دو ہزار کی پرسنٹ ایج نکالیں تو یہ کچھ بھی نہیں تھا ان میں بھی دوسرے علاقوں سے آئے افراد کی مجموعی تعداد لاہور سے نکلنے والے افراد سے کم تھی ۔
یہ بھی پڑھیں :الیکشن 30 اپریل کو نہیں ہوں گے
کم تعداد کے پیش نطر ہی ریلی کو داتا دربار نہ لیجانے کا فیصلہ کیا گیا عمران خان صاحب کا بند گاڑی کے اندر سے ہی خطاب کرایا گیا جو اُن کے چارماہ سے روزانہ کیے جانے والے خطاب سے کچھ مختلف نہیں تھا مایوسی ہی مایوسی تھی ،ریلی کو قبل ازوقت ختم کیا گیا اور خان صاحب عازمِ زمان پارک ہوئے یا یوں کہہ لیں’ پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا ‘ پارٹی ذرائع کے مطابق عمران خان جس خوف کے بت کو توڑنا چاہتے تھے وہ اس میں ناکام رہے 2017 میں اُن کے ایک کیئے گئے ٹویٹ کو بھی وائرل کیا گیا جس میں انہوں نے بلٹ پروف گاڑی میں بیٹھ کر خطاب کرنے کو بزدلی قرار دیا تھا ،ذرائع کے مطابق عمران خان لاہور میں پی ٹی آئی کی تنظیم سے سخت ناراض ہیں ریلی کا وہ امپیکٹ نہیں بنا جو وہ بنانا چاہتے تھے چار ماہ کی خودساختہ اپنے گھر میں نظر بندی کے بعد جو امیدیں باندھی گئیں تھی وہ توٹ گئیں سچ پوچھیں تو لوٹ کے بدھو گھر کو آئے والا معاملہ نظر آرہا تھا ۔
اب عمران خان نے اتوار کو مینار پاکستان پر جلسے کا اعلان کیا ہے لیکن شایدجس گیارہ اکتوبر کے جلسے کا وہاں انتظار کررہے ہیں وہ انہیں یہاں بھی نہیں ملے گا ،اتوار کو پی ایس ایل کا فائنل میچ ہے جس کے باعث انتطامیہ انہیں شاید جلسے کی اجازت بھی نہیں دے گی، یوں سیاسی ماحوال میں عمران خان جس معجزے کے منتظر ہیں اس کی امیدیں روز بروز مدہم ہوتی جارہی ہیں ان کا سیاسی مستقبل کیا ہوگا ؟اس پر اب ایک بڑا سوالیہ نشان لگ گیا ہے ۔
نوٹ : ادارے کا بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضرور ی نہیں۔ادارہ