اسلامو فوبیا سے نمٹنے کا عالمی دن دنیا کو کیا پیغام دیتا ہے؟

Mar 15, 2024 | 11:43:AM
اسلامو فوبیا سے نمٹنے کا عالمی دن دنیا کو کیا پیغام دیتا ہے؟
کیپشن: فائل فوٹو
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(احمد منصور) اسلامو فوبیا مسلمانوں کیخلاف خوف، تعصب اور نفرت کا نام ہے جو آن لائن اور آف لائن دنیا میں مسلمانوں کیخلاف اشتعال، دشمنی اور عدم برداشت کو ہوا دیتا ہے۔

اسلاموفوبیا نظریاتی، سیاسی، مذہبی دشمنی، ساختی اور ثقافتی نسل پرستی کے ذریعے مسلمانوں کی خصوصی علامتوں اور تعلیمات کو نشانہ بناتی ہے، اسے نسل پرستی سے بھی تشبیہ دی جاتی ہے جس کے تحت اسلامی مذہب، روایت اور ثقافت کو مغربی اقدار کیلئے ’خطرے‘ کے طور پر تصور کیا جاتا ہے۔

دنیا بھر میں مسلمان اسلاموفوبیا کے باعث بے شمار تکالیف اور پُرتشدد واقعات کا شکار ہو چکے ہیں، پاکستان نے اسلاموفوبیا کیخلاف عالمی سطح پر آواز بلند کی اور 15 مارچ 2022ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اس سے متعلق قرارداد بھی پیش کی۔

پاکستان کی پیش کردہ قرارداد میں 15 مارچ کو اسلاموفوبیا سے نمٹنے کے عالمی دن کے طور پر متعارف کروانے کی پیشکش کی گئی، اسلاموفوبیا سے نمٹنے کے عالمی دن کا مقصد مسلمانوں اور انسانی حقوق کے حوالے سے بین الاقوامی سطح پر رواداری کو فروغ دینا ہے، اس قرارداد میں دہشتگردی کو کسی بھی مذہب اور قومیت سے منسوب نہ کرنے پر بھی زور دیا گیا۔

15 مارچ 2022ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اسلاموفوبیا سے نمٹنے کے عالمی دن کی قرارداد کو 55 ممالک کی حمایت کے ساتھ منظور کیا گیا۔

اسلاموفوبیا سے نمٹنے کی قرارداد کی مخالفت کرنے والے ممالک میں بھارت سرفہرست تھا جو مسلمانوں کیخلاف انتہاء پسندی، تشدد، ظلم و جبر میں نمایاں تاریخی کردار رکھتا ہے، اسلام بھارت میں دوسرا بڑا مذہب ہے اور بھارت کی ڈیڑھ ارب کی کل آبادی میں 14 فیصد مسلمان ہیں جن کو تعلیم، ملازمت، بنیادی ضروریات زندگی اور سیاسی نمائندگی حاصل کرنے میں ہندوستانی انتہاپسندی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

ہندوستان کی تاریخ مسلمانوں کیخلاف ظلم و ستم سے بھری پڑی ہے جن میں 1992ء میں بابری مسجد، 2002ء میں گجرات فسادات، 2013ء میں مظفرنگر، 2020ء میں دہلی، 2021ء میں ہریدوار فسادات اسلاموفوبیا کے اہم واقعات ہیں۔

مسلمانوں کی مساجد کو شہید کرکے مندر تعمیر کرنا انتہا پسند ہندؤوں کا پسندیدہ مشغلہ ہے جس کی مثالیں بابری مسجد، نواپی مسجد، شاہی مسجد و دیگر مساجد شامل ہیں جوکہ ہندوستان میں مسلمانوں کی حالت زار کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

یہ بھی پڑھیے: امریکی ایوان نمائندگان میں پاکستانی الیکشن اور جمہوریت پر سماعت مقرر

بین الاقوامی سطح پر ہندوستان میں مسلمانوں کی نسل کشی اور خواتین کے ساتھ زیادتیوں پر مبنی بی بی سی کی ڈاکیومنٹری نشر کی جا چکی ہے جبکہ 2002ء کے گجرات فسادات کے ذمہ دار انتہا پسند مودی پر دوسری ڈاکیومنٹری کو نشر ہونے کو تیار تھی جس کو مودی نے روکنے کی ہر ممکن کوشش کی۔

2014ء میں مودی کے اقتدار میں آتے ہی مسلمانوں کیخلاف انتہا پسندی میں انتہائی تشویش ناک حد تک اضافہ ہوا، گزشتہ دو دہائیوں کے دوران بھارتی پارلیمنٹ میں مسلمانوں کی نمائندگی محض 5 فیصد رہ گئی ہے جبکہ حکومتی جماعت بی جے پی میں ایک بھی مسلمان کارکن یا رہنما شامل نہیں۔

ایک رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں اسلاموفوبیا اب محض امتیازی سلوک نہیں رہا بلکہ باضابطہ ریاستی نظریہ بن چکا ہے، بی جے پی نے 192 ملین مسلمانوں کیخلاف اسلاموفوبیا کے ذریعے پرتشدد پروگرام کا آغاز کردیا ہے۔

رمضان کے مقدس مہینے کے دوران کشمیر میں معصوم مسلمانوں کیخلاف بھارتی فورسز کی غیرانسانی کارروائیوں میں سنگین حد تک اضافہ ہوجاتا ہے، کشمیر میں آرٹیکل 370 اور 35A کی منسوخی کے بعد مودی سرکار کے کشمیریوں پر ظلم اس حد تک بڑھ گئے ہیں کہ کسی مسلمان کا قتل، جنسی زیادتی یا اغواء جیسے بڑے جرائم بھی قابل سزا نہیں ٹھہرائے جاتے۔

دنیا میں مسلمان اسلاموفوبیا کے شکار ہیں مگر دیگر خطوں میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم اور بھارت میں ہونے والے مظالم کا موزانہ کیا جائے بھارت میں ہونے والے مظالم کی فہرست بہت طویل ہے۔

بھارت میں انتہا پسند ہندوتوا کے کارکنوں کی جانب سے آئے روز مسلمانوں اور دیگر اقلیتیوں پر حملے جاری رہتے ہیں جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ بھارت میں موجود مسلمان کسی طور پر بھی محفوظ نہیں ہیں۔